ایسا بھی ہوتا ہے

بعض لوگوں کو تسلی نہیں ہوتی۔ پھر ان کو تسلی دینا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔جب تک کہ وہ خود کسی طرح مطمئن نہ ہوں انھیں کسی معاملے میں مطمئن کرنا گویا پہاڑ کھودنے کے برابر ہے۔ یہ سب نفسیاتی مسائل ہیں۔پھر بعض لوگ تو زندگی بسر کرتے ہیں۔مگر بعض حضرات زندگی میں حد سے زیادہ محتاط ہوتے ہیں۔یوں کہہ لیں کہ زمانے بھر کی ٹھوکریں کھائی ہوئی ہوتی ہیں۔شاید اس وجہ سے یا پھر کوئی اوروجہ بھی ہو سکتی ہے۔یہ لوگ کسی بھی معاملے میں سو فیصد درستی مانگتے ہیں جب بیمار بھی ہو جائیں تو ڈاکٹرکے لئے بھی وبال بن جاتے ہیں۔ہر دوا میں مین میخ نکالتے ہیں۔ ڈاکٹر کچھ سمجھ کر ان کو دوا دیتا ہے۔ مگر یہ اپنے حساب سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔ایک صاحب کو دل کا مسئلہ ہوا تو دل کے بڑے ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچے۔وہاں ان کے ٹیسٹ وغیرہ ہوئے۔ایمرجنسی میں احتیاط کے طور پر کئے جانے والے ٹیسٹوں میں ان کے دل کے بیمار ہونے کی بابت کہیں ثبوت نہیں ملا۔ مگر وہ تو ڈاکٹر کے پاس سے ٹلنے والے نہیں تھے۔ کیونکہ انھوں نے نیٹ پر سرچ کر کے سب کچھ پہلے سے جان رکھا تھاکہ دل کی بیماری کیا ہوتی ہے۔دل کی بیماری میں اور کون کون سی پیچیدگیاں ہیں۔ڈاکٹر نے کہا آپ جو علامات بتلا رہے ہیں وہ اپنی جگہ سو فی صد درست ہیں۔مگر ٹیسٹ وغیرہ کر لینے کے بعد میں یقین سے کہتا ہو کہ آپ کو دل کی تکلیف سرے سے نہیں۔ مگر مریض کو کون سمجھائے وہ انگریزی زبان میں میڈیکل کے حوالے سے تمام ہڑپ کی ہوئی معلومات اُگلنے لگے۔ہمارے ایک دوست تھے۔گھر سے نکلے تو تالا لگا کر گلی سے ہوتے ہوئے سڑک پر آنے لگے۔ اچانک انھیں کچھ یاد آیا۔ پھر وہ دوبارہ گھر کی طرف لوٹ گئے۔بھائی جو ساتھ ساتھ جا رہے تھے۔انھوں نے کہا بس بس ہو گیا ہے آؤ۔مگرانھوں نے جواب نہ دیا۔ وہ گھر کے دروازے تک پہنچے اور لگائے ہوئے تالے کو دوبارہ کھینچا۔ جب اطمینان حاصل کر لیا تو واپس گلی کے باہر چلے گئے۔ اس قسم کے لوگوں کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے۔یہ نہیں جانتے کہ ہزار احتیاط کے باوجود جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ہونی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ہاں جہاں تک احتیاط کی بات ہے بندہ اپنی حد تک محتاط رہے۔ ہمارے ایک رشتہ دار تھے۔صحت کے محکمہ میں کام کرتے تھے۔ ان کو ہر دوا او راس کے سائیڈ ایفیکٹ کے بارے میں اس حد تک معلومات حاصل تھیں کہ جتنی ڈاکٹر کو بھی نہ ہوں۔کیونکہ ڈاکٹر ینگ تھے اور یہ عمر رسیدہ تھے۔ وہ جب کسی بیماری کے سبب کسی پرائیویٹ کلینک میں ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچے۔ڈاکٹر نے پوچھا جی کیا مسئلہ ہے۔انھوں نے اپنا مسئلہ بیان کرنا شروع کیا۔ یہاں انھوں نے بات کرنا شروع کی وہاں ڈاکٹر نے دوا لکھنا شروع کر دی۔انھوں نے بڑے مؤدبانہ انداز میں ڈاکٹر صاحب سے کہا آپ تو میری بات سن ہی نہیں رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا دیکھیں جب مریض ہمارے کمرے کے اندر آتا ہے ہم اس کی چال سے اس کی بیماری کا اندازہ پہلے سے لگا لیتے ہیں۔مجھے یہ علم ہو چکا تھا کہ آپ کیا بیمار ہو سکتے ہیں۔آپ سے اس لئے پوچھا کہ خود آپ کو تسلی ہو کہ میں نے اپنے دل کا سارا حال ڈاکٹرکو کہہ سنایا ہے۔وگرنہ تو ہمارا تجربہ ہمیں سب کچھ بتلادیتا ہے۔ اس پر اس مریض نے جیب سے ایک پرچہ نکالا او رڈاکٹر صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ ڈاکٹر سے کہا میں اس بیماری کے لئے یہ ادویات اب تک استعمال کر چکا ہوں۔ ا س پرچے میں ادویہ کی ایک طویل فہرست تھی۔ وہ پرچہ ڈاکٹر نے دیکھا تو اس کے ماتھے پر پریشانی کے آثار پیدا ہوئے۔ اس کا ہاتھ جو دوالکھ رہا تھا رک گیا۔ یعنی وہ اس سوچ میں پڑ گئے کہ اس سمجھ دار نادان نے تو سب دوائیں کھا ئی ہوئی ہیں۔ اب اس کو کون سی دوا دی جائے۔ ڈاکٹر نے اس کو جیسے تیسے کر کے وہاں سے ٹالا۔ پھر کیا ہوا اس کے بعد راوی خاموش ہے۔ایک پروفیسر صاحب ہوا کرتے تھے۔سٹاف روم میں اپنی دراز میں رجسٹر وغیرہ اس کے ساتھ کنگھی اور ٹشو پیپر اور خوشبویات کا انبار بھی رکھتے تھے۔ ہرروز کی الگ خوشبو تھی۔ دراز کو تالا لگاتے۔میرے جانے کے بعد تالا کھلے گا تو نہیں تالا چیک کرتے۔ وہ اس موقع پر دراز کو زور سے اپنی طرف کھینچتے پھر ایک بار بھی نہیں دوبار کھینچ کر جیسے بہت بڑا کارنامہ کیاوہی ہاتھ ہوا میں لہراتے اور اگلی کلاس کو روانہ ہو جاتے۔انسان بھی کیاچیز ہے۔اس قسم کے لوگ بہت حساس ہوتے ہیں۔ہر بات کی طرف ان کا بھرپور دھیان ہوتا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہوجائے۔