سیاسی ہنگامہ اور مہنگے انتخابات

اس وقت ملک میں سیاسی بے یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں، عدم اعتماد نے سیاسی گرما گرمی میں اضافہ کردیا ہے اگر  وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو کیا باقی ماندہ ایک سال کیلئے کوئی جماعت اس مشکل دور میں حکومت کرنا پسند کریگی،زیادہ امکان تو یہ ہے کہ ملک کو فوری طور پر الیکشن کی طرف جانا ہوگا، جس کیلئے ایک خطیر رقم درکار ہوگی۔کئی حلقوں میں یہ بحث ہورہی ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں آنے والے انتخابات کس حد تک مہنگے ہو سکتے ہیں اور یہ کہ انتخابات کیلئے اتنی خطیر رقم کا انتظام کیسے کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ حکومت نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہی ہوں گے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کام بھی کر رہا ہے۔ تاہم مالی امور پر گہری نظر رکھنے والوں کا دعوی ہے کہ ایسی مشینوں کے ساتھ انتخابات انتہائی مہنگے ہو سکتے ہیں۔واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق 2018 کے انتخابات میں تقریبا 21 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے۔ 2008 کے عام انتخابات میں 1.84 ارب روپے جبکہ 2013 میں 4.73 ارب روپے حکومت کی طرف سے مختص کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں نے بھی انتخابی مہم اور اشتہارات پر بے پناہ پیسہ لگایا تھا۔ انتخابات سے متعلق ایک معاشی اندازے کے مطابق 2018 کے انتخابات کے دوران چار سو ارب روپے کی سرگرمیاں ہوئیں۔پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر ملک میں فوری طور پر انتخابات ہوتے ہیں، تو یہ بہت مہنگے ہوں گے۔ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے اور الیکشن2023 میں ہوتے ہیں تو اس صورت میں بھی وہ بہت مہنگے ہوں گے۔
018 کے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کیلئے گیارہ ہزار سے زائد امیدوار تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان امیدواروں نے انتخابات کے دوران بے تحاشا اخراجات انتخابی تیاریوں اور مہم پرکیے۔معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ناقدین کا خیال ہے کہ ان انتخابات سے ملکی معیشت کو حرارت ملتی ہے جس سے پرنٹنگ، ایڈورٹائزنگ ڈیکوریشن اور دوسرے شعبوں کو بہت کاروباری فائدہ ہوتا ہے جبکہ کیٹرنگ بھی ان تمام سرگرمیوں سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ایک انتخابی امیدوار کے مطابق پاکستان میں قومی اسمبلی کے امیدوار دو کروڑ سے لے کر بیس کروڑ تک انتخابات پر خرچ کرتے ہیں۔ انتخابات کے دوران پرنٹنگ، ایڈورٹائزنگ اور بہت سارے شعبوں کو فروغ ملتا ہے جس کی وجہ سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انتخابات میں سینکڑوں ارب روپیہ خرچ کیا جاتا ہے۔ اور ایک محتاط اندازے کے مطابق2018 کے انتخابات میں 400 ارب روپے سے زیادہ ممکنہ طور پر لگا ہو گا۔ اس وقت پوری دنیا میں مہنگائی کی لہر چل رہی ہے  اورپاکستان میں بھی گزشتہ تین برسوں میں ساری دنیا کی طرح بہت زیادہ مہنگائی بڑھی ہے جس کی وجہ سے یہ بھی امکان ہے کہ انتخابی اخراجات بھی کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ ابھی سے یہ خدشات ظاہر کئے جار ہے ہیں کہ2023 کے انتخابات مہنگے ترین ہوں گے۔
 اس رپورٹ میں دعوی کیا گیا تھا کہ 331 ملین پاکستانی اور دس ملین بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے الیکشن کے انتظامات کیے جائیں گے جس پر 424 ارب روپے کا خرچہ آ سکتا ہے۔ اگر چہ یہ ایک اندازہ ہے تاہم ماہرین کے مطابق ایک قریبی اندازہو سکتا ہے۔یہ بھی  ممکن ہے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کیا جائے اور اس حوالے سے ایک پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ نے کام بھی شروع کردیا ہے، لیکن ابھی تک انتخابات کا کوئی مالی تخمینہ نہیں لگایا ہے۔ جن ممالک میں یہ مشینیں استعمال ہوتی رہی ہیں وہاں سے دستیاب اعداد وشمار کے مطابق ای وی ایم بہت مہنگی پڑیں گی اور اس سے انتخابی اخراجات بہت بڑھیں گے۔ایسے حالات میں کہ جب پاکستان کا تجارتی اور مالی خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں کئی ناقدین یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر ای وی ایم کے ذریعے انتخابات ہوتے ہیں تو اتنی خطیر رقم کہاں سے آئے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ایک مرتبہ کی سرمایہ کاری ہے۔جب بھی کسی شعبے میں آپ پہلی مرتبہ سرمایہ کاری کرتے ہیں تو وہ مہنگی ہوتی ہے لیکن یہ مشینیں ممکنہ طور پر بیس پچیس برس چل سکتی ہیں تو یہ طویل مدت میں مہنگی نہیں پڑیں گی۔پھر دوسری بات یہ بھی تو ہے کہ اگر ان مشینوں کی مدد سے ایسے انتخابات ہوسکتے ہیں کہ جن پر سب کا اعتماد ہو اور ملک اس”میں نے مانوں“والے ہنگامے سے نکل جائے تو یہ خسارے کا سود ا نہیں اس ہنگامہ خیزی میں ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر الیکشن پر زیادہ خرچہ ہوبھی جائے اور وہ اس قدر شفاف ہوں کہ اس کے بعد ہنگامہ خیزی کا خاتمہ ہو تو پھر اس کو بھی قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مختصرا ً یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ملک مشکل حالات میں گھرا ہواہے اور اس وقت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا انتہائی ضروری ہے۔