یہ انتہائی مصروف چوک ہے۔شہر کا مرکزی راستہ۔جہاں تین معروف شاہراہوں کا سنگم ہے۔ یہاں ہمہ وقت رش رہتا ہے۔بچہ جوان بوڑھا یا خواتین۔یہاں دوڑتے بھاگتے نظر آئیں گے۔ چھابڑی فروش الگ ہیں اور ٹریفک سگنل پرایک دم سے نمودار ہونے والے پرچون فروش جدا۔ یہاں بھکاری بھی متحرک ہوتے ہیں۔ یہاں کسی گاڑی کے کھڑے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہاں دس پندرہ سیکنڈکو گاڑی کھڑی ہوگی تو اتنا رش جمع ہو گا کہ راستہ کھلنے میں خاصی دیر لگ جاتی ہے۔اس لئے ٹریفک اہل کار یہاں کسی گاڑی کو فضول کھڑے ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ کوئی گاڑی اگر لمحہ بھر کیلئے کھڑی ہوتو وہ سوزوکی ہے۔جن میں سواریا ں ٹھنسی پڑی ہوتی ہیں۔اوپر تلے گری ہوئی بلکہ گرائی گئی یہاں سواریوں والی دو سوزوکیاں ایک دوسرے کے پیچھے کھڑی ہو گئی تھیں۔ان کے کنڈکٹروں کا بس نہیں چلتا تھا کسی جانب نہ جانے والے پیدل آدمی کو بھی اٹھا کرگاڑی میں بٹھا دیں۔پھر اس کو کسی نہ کسی طرف ہانک لے جائیں۔کوئی یونہی ہوا خوری کے لئے پیدل نکلاہو تو ان کنڈکٹروں کے ہتھے چڑھ جائے۔ اس وقت تو یہ نادانی میں اس کو بزور سوا رکر دیتے ہیں۔ وہ بھلے احتجاج کرے اور چیخے چلائے۔ان سوزوکی ڈرائیورں کی آپس میں پیشہ وارانہ طور پر نہیں لگتی۔ہرڈرائیور چاہتا ہے کہ دوسرے کی تمام سواریوں کو اپنی گاڑی میں لاد کر لے چلوں۔ شور شرابا اورمختلف سٹاپ کے لئے کنڈکٹروں کی چیخ و پکار ماحول کو خراب کر دیتی ہے۔یہاں پُل کے نیچے دو سوزوکیا ں ایک کے پیچھے دوسری کھڑی ہوگئیں۔اتنے میں دو دوست نمودار ہوگئے۔چونکہ گاڑیوں کو یہاں ایک سیکنڈ کے لئے بھی کھڑے ہونے کی اجازت نہیں۔اس لئے ان دو دوستوں کو جلدی سے سوار ہونا تھا۔ ایک تو سوار ہوگیا مگر دوسرے کو اگلی گاڑی والے عملے نے گھیر لیا۔
اب وہ اپنے ساتھی کیلئے پچھلی سوزوکی میں سوار ہونا چاہتا ہے۔مگر اس کو کہا ں سوار ہونے دیتے۔اس کو گھیر لیا گیا اور زبردستی اپنی گاڑی میں سوار کرنے کی کوشش کی۔ اس کی قمیض سے پکڑ لیا۔اب وہ ان سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے۔اس لئے کہ پچھلی گاڑی کہیں روانہ ہو نہ جائے اور اس کا ساتھی اس سے بچھر جائے۔ یہ دھینگا مشتی کا عالم دیکھنے لائق تھا۔جب سوزوکی کے باہر لٹکی ہوئی سواریاں اور میں اپنے طلسمی گھوڑے پر سوار ہو کر یہ منظر دیکھ رہے تھے۔پہلے تو لگا جیسے خراب قسم کی لڑائی ہونے لگی ہے۔ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔شاید کسی کو اغوا کرنے کی کوشش ہے۔کسی بندے کو گھیر کر سوزوکی میں زبردستی بٹھانا چاہتے ہیں اور وہ نہیں بیٹھ رہا۔یوں زور زبردستی کسی کو بازو سے پکڑ کر اپنی گاڑی میں سوار کرناانتہائی نامعقول حرکت ہے۔پولیس کی تو کوشش ہوتی ہے شہر میں امن بحال رہے اور پرسکون ٹریفک کی فضا ہو۔مگر جب شہری خود نہیں چاہتے تو امن کہا ں سے آئے گا۔یہ لوگ سواری اٹھا لیتے ہیں تو پھر پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو سواری کو اٹھائیں اس سے کرایہ وصول کریں۔پھر اس کے بعد سواری کو چلتی ہوئی گاڑی سے نیچے پھینک کر دوسری سواری کو اچک لیں۔جیسے چیل اچانک نیچے سڑک پر اڑنے کی بدستور حالت میں کھانے پینے کی چیز چابک دستی میں اٹھا کر لے جاتی ہے۔ یہاں یہ رستہ شہر سے باہر بھی جاتاہے اورشہر کے اندر بھی آتا ہے۔آدھ فرلانگ میں ایک رستہ موٹر وے کو بھی چڑھتا ہے اور وہیں سے نیچے پشاور کو آنے کیلئے اترتا بھی ہے۔پھر کوہاٹ کو اور ملحقہ گاؤں اور پرگنوں کی جانب بھی اسی راستے نے اپنارخ تبدیل کیا ہواہے کسی میں بھی صبر کا عالم نہیں۔ہرایک کو جلدی ہے۔پھر جانے کس بات کی جلدی ہے۔
جب تمام کو جلدی ہے تو ظاہر یہ ہوا کہ ان کو کوئی جلدی نہیں۔یہ اصل میں بے صبری ہے۔ہر یک چاہتا ہے کہ میں پہلے نکل چلوں۔اسی کشمکش میں اگرتمام یہی چاہتے ہیں کہ ہم آگے نکلیں تو مطلب یہ کہ ان کو کسی بات کی جلدی نہیں۔ اگر کچھ ہے تو صرف بے صبری ہے۔پھر اگر غور فرمائیں کہ اگر بے صبری ہے تو کاہے کو ہے۔یہ بے صبری تو پورے پشاور کی ٹریفک میں زہر کی طرح دوڑ رہی ہے۔وجہ یہ ہے کہ یہاں کاٹریفک کاانتظام خوب نہیں۔ٹریفک پھنس جائے رش ہو جائے ہر بندہ اس سے ڈرتاہے۔کچھ تو گاڑیوں والوں کا قصورہے کچھ راستوں کی ترتیب ایسی ہے کہ یہ ٹریفک کے بے بہا بہاؤ کو برداشت کرنے سے قاصر ہے۔جگہ جگہ رکناپڑتا ہے۔اس لئے کہ ہجوم میں گاڑیاں ایک دوسرے سے چپکی ہوتی ہیں۔یہاں پل کے نیچے ایک یوٹرن ہے۔جس کو دو دن پہلے کھول دیا ہے۔یہ آئے روز بند رہتا ہے۔ٹریفک کے انتظام کنندگان آپس میں متفق ہی نہیں کہ اس کو کھولیں یا بند رکھیں۔ اس کے کھلنے سے ٹریفک کے سیلاب کو کنٹرول کرنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔یہ یوٹرن جب بند ہوجاتا ہے تو شہر کی طرف جانے والوں کو بے حد تکلیف کا سامناکرنا پڑتاہے۔وہ واپس مڑنے کوبہت دور جا کر سڑک پر کوئی اور یو ٹرن تلاش کرتے ہیں۔