بڑی خوشخبری 

 ایسے حالات میں کہ جب دنیا بھر میں ممالک کی معیشتیں دباؤ کا شکار ہیں اور مہنگائی کادور دورہ ہے، اہل وطن کیلئے یہ ایک بڑی خوشخبری ہے کہ عرصہ دراز سے تنازعے کا شکار ریکوڈک منصوبہ بلاخر دوبارہ چالو ہونے لگا ہے اور اس کے ملکی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ ایک بہت ہی اہم خبر ہے کہ صوبہ بلوچستان کی حکومت اور بیرک گولڈ کارپوریشن نامی کمپنی کے درمیان ضلع چاغی میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے پراجیکٹ ریکوڈک پر معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔گزشتہ روز وزیر اعظم پاکستان نے بھی ٹویٹ کے ذریعے قوم کو یہ خوشخبری سنائی اور وزیِر خزانہ شوکت ترین کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ کینیڈین کمپنی نے 11 ارب ڈالر کے جرمانے کی تلافی کے ساتھ ساتھ 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سرمایہ کاری سے بلوچستان میں ملازمتوں کے آٹھ ہزار مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کو بے پناہ فوائد ملیں گے اور معاہدے سے انکم فلو 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، اس سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ٹیکسوں کی مد میں بے پناہ ریونیو حاصل ہو گااور دیکھا جائے تو اس وقت ضرورت بھی ریونیو کی ہے جس سے ملکی معیشت کو استحکام ملے اور ملکی خزانے پر دباؤ میں کمی ہو۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ معاہدے میں علاقے کی ترقی کا خصوصی پیکج بھی شامل کروایا گیا ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پیکج پر تیزی کے ساتھ عمل درآمد ہو تاکہ علاقے کی پسماندگی کو دور کرنے اور یہاں کے عوام کے مسائل کو ختم کرنے میں زیادہ عرصہ نہ لگے، میڈیا رپورٹس کے مطابق پراجیکٹ کمپنی ریکوڈک منصوبے پر آٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی جو کہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہو گی۔ منصوبے پر تمام صوبائی ٹیکس لاگو ہوں گے۔ اس حوالے سے وزیراعلی بلوچستان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٹھوس موقف اپناتے ہوئے کوئی پیسہ خرچ کیے بغیر بلوچستان کے لیے 25 فیصد حصہ لینے میں کامیابی حاصل کی۔ان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل ہے۔ اگر ہم نے کوئی کوتاہی کی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ریکوڈک معاہدے کی حتمی منظوری اور کام کے آغاز سے پاکستان اور بلوچستان پر بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد مستحکم ہو گا اور وہ بلوچستان کی جانب راغب ہوں گے جہاں دنیا و جہاں کے معدنی ذخائر موجود ہیں جن سے استفادہ کرنے سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان سمیت پورے خطے پر اس کے مثبت معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو ہمیشہ سے احساس محرومی کے نعرے پر اُکسایا جاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں ترقی کے لحاظ سے پیچھے بھی ہے۔ تنازعے کے شکار اس منصوبے کو دوبارہ سے صحیح سمت میں ڈالنے والے تمام ادارے قابل ستائش ہیں جنہوں نے مسلسل اس حوالے سے کوششیں کیں اور پاکستان کے کیس کو بڑی ہمیت اور جرات کیساتھ پیش کیااور بالاخر یہ بڑا اور بہت ہی اہم منصوبہ اب ملک کو ترقی کی نئی راہ پر ڈالنے کیلئے تیار ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ریکوڈک سمیت سی پیک اور دیگر اہم منصوبوں پر تیزی کے ساتھ کام ہو اور اس حوالے سے کوئی سستی نہ دکھائی جائے۔ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے اور اس کا شمار پاکستان میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے جبکہ دنیا کے چند بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ریکوڈک کے قریب ہی سیندک واقع ہے جہاں ایک چینی کمپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تانبے اور سونے کے ذخائر پر کام کر رہی ہے۔ تانبے اور سونے کے دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ چاغی میں بڑی تعداد میں دیگر معدنیات کی دریافت کے باعث ماہرین ارضیات چاغی کو معدنیات کا شو کیس کہتے ہیں۔یہ ایک بہت ہی خوش آئند منظر نامہ ہے کہ ایک طرف چین تو دوسری طرف اب کینیڈا بھی سونے اور تانبے جیسی قیمتی دھاتوں کو برسرز مین لانے میں مصروف ہوگا۔دنیا میں کاپر اور سونے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع معدنیات کے ذخائر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا میں وہ کاپر اور سونے کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہیں جن پر آج تک مکمل انداز میں کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔اب جبکہ یہ معاملہ بالاخر خوش اسلوبی سے طے ہوگیا ہے تو اسے ایک بڑی کامیابی سمجھتے ہوئے اس کے ثمرات سے جلد از جلد استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کو معدنیات کے حوالے سے دنیا بھر میں ممتاز مقام حاصل ہے تاہم ماضی میں اس سے استفادہ کرنے میں سستی دکھائی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف بلوچستان کی پسماندگی دور نہیں کی جاسکی بلکہ ملکی معیشت پر اس کے جو مثبت اثرات مرتب ہونے تھے ان سے بھی ملک محروم رہا۔