نفسیاتی امراض: سنجیدہ پہلو 

 لمحہئ فکریہ ہے کہ ذہنی امراض و دیگر نفسیاتی عارضوں کے مقابلے متعلقہ معالجین کی تعداد کم ہے جبکہ غربت و مہنگائی میں اضافے اور معاشی پریشانیاں بھی ایسے امراض میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں‘ جن کے باعث سماجی مسائل (الجھنیں) پیدا ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں قومی صحت سے متعلق جاری شدہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق‘ بائیس کروڑ افراد کی آبادی کے تناسب سے ذہنی و نفسیاتی بیماریوں سے متعلق معالجین کی تعداد کم ہے جبکہ قومی صورتحال سے یہ تلخ حقیقت بھی عیاں ہے کہ عوام کی اکثریت ماہرین نفسیات کی ضرورت محسوس بھی نہیں کرتیں۔کیونکہ بہت سے نفسیاتی مریض یہ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ وہ مرض کا شکار ہیں اور بدقسمتی تو یہ ہے کہ معاشرے میں بھی نفسیاتی امراض کو تسلیم کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے جس طرح بخار اور زکام سمیت جسمانی بیماریوں کو فوراً تسلیم کیا جاتا ہے اور مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے اس طرح نفسیاتی امراض کی صورت میں اکثر لوگ مریض کو مشورے دیتے ہیں کہ وہ وہم نہ کرے اور اس طرح مسئلہ وقت بڑھنے کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکل آتا ہے کہ معمولی بیماری گھمبیر صورت اختیار کر جاتی ہے۔ لائق توجہ امر یہ بھی ہے کہ پانچ کروڑ (پچاس ملین) پاکستانی ذہنی صحت کے چیلنجوں کا شکار ہیں۔ اِن میں قیدی بھی شامل ہیں اور امکان ہے کہ زیرحراست افراد کی اکثریت ذہنی و نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہے جن کی رہائی کے بعد یہ افراد بظاہر صحت مند دکھائی دیتے ہیں لیکن جیل میں قید اِن افراد کی بڑی تعداد کسی نہ کسی طور پر ذہنی بیمار ہوتی ہے اور اِس سلسلے میں ”جسٹس پراجیکٹ پاکستان“ کے نام سے خصوصی رپورٹ (نئے اعدادوشمار) جاری ہوئے ہیں جن میں ذہنی طور پر بیمار قیدیوں کے مستقبل‘ ان کی ذہنی حالت اور جسمانی قید کے نتیجے میں دوہری آزمائش جیسے انتہائی سنجیدہ امور کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اگر چہ یہ قانون موجود  ہے کہ جو شخص ’ناقص العقل‘ ہو اور وہ ذہنی طور پر جرم کی نوعیت کو سمجھتا ہی نہ ہو تو ایسے شخص (ملزم) کو سزا نہیں ملنی چاہئے اور ایسے ذہنی مریضوں کی سزا میڈیکل بورڈ کے کسی نتیجے (طبی معائنے) سے مشروط ہونی چاہئے۔ اس بات کا کوئی حقیقی ثبوت نہیں ہے کہ  اس پرمکمل طور پر عملدرآمد ہوتا بھی ہے کہ نہیں۔ ذہن نشین رہے کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذہنی طور پر بیمار قیدی اکثر جیل میں طرح طرح کے اذیتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں پھانسی کے لمحے تک جکڑ کر رکھا جاتا ہے۔ ایسے مجرم بھی ہوتے ہیں جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں پھانسی کیوں دی جا رہی ہے یا یہ بھی کہ انہیں واقعی پھانسی ہو جائے گی۔۔ قید خانوں کے حالات اور انسانی حقوق ایک ایسا قومی مسئلہ ہے جس سے وقتی تدابیر کے علاؤہ نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ملزم جو ذہنی امراض کا ماضی رکھتے ہوں اور وہ زیرعلاج بھی ہوں تو اُنہیں پھانسی کا سزاوار قرار نہیں دینا چاہئے کیونکہ وہ نہ تو جرم کو اور نہ ہی سزا کو سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کو علم یا ادراک ہی نہیں ہوتا کہ اُن کی حرکات و افعال کا نتیجہ اس قدر بھیانک یا تکلیف دہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ذہنی طور پر تندرست نہیں ہوتے۔ ذہنی امراض کا شکار افراد بظاہر بالکل تندرست دکھائی دے رہے ہوتے ہیں اِس لئے اُنہیں سمجھنے میں اکثر غلطی ہو جاتی ہے۔ ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ذہنی طور پر بیماروں (نفسیاتی امراض) کو مریض سمجھ کر عزت دی جائے! عوام میں نفسیاتی امراض کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ نہ صرف اپنے اردگرد موجود نفسیاتی بیماروں کے حوالے سے وہ زیادہ مناسب رویہ اختیار کریں بلکہ ذہنی بیماریوں سے بچاؤ کے سلسلے میں بھی وہ زیادہ موثر طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے قابل ہوں۔