لبنان اپنی خوبصورتی کیلئے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس ملک کو مشرق وسطی کا سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتاہے‘یہاں پہاڑ ہیں‘سمندر ہے‘ سرسبز و شاداب وادیاں اور گھنے خوبصورت جنگل ہیں۔ صنوبریہاں کا قومی درخت ہے۔ قدیم زمانے میں مصر کے بادشاہ نیل پر چلنے کیلئے مضبوط کشتیاں لبنانی صنوبر کی لکڑیوں سے بناتے تھے۔ ایسی ایک بڑی کشتی مصرمیں خوفو کے اہرام سے متصل سولر میوزیم میں آج بھی محفوظ ہے۔ خود لبنان کے علاقے بشرے میں کوئی سات ہزار سال پرانے صنوبر کے درخت یہاں کی قدیم تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دنیائے عرب کے مشہور فلسفی، شاعر اور فنکار خلیل جبران کا تعلق اسی سرزمین سے تھا۔ اس کے جسد خاکی کواسکی وصیت کی مطابق لبنان لایا گیا۔ اس کے گاؤں بشرے میں ایک گھر کوعجائب گھر میں تبدیل کرکے ایک کمرے میں اس کے فن پارے اور دوسرے میں اسکی چارپائی، میز اور دوات رکھے گئے۔ تیسرے کمرے میں لکڑی کی تابوت میں خلیل جبران ابدی نیند سو رہا ہے۔ یہ گھر بیروت سے دور پہاڑ میں واقع ہے۔ اس علاقے سے گزرتے ہوئے اگر کوئی راستہ پوچھ لے توخوبصورت وادی کے مکین بڑے تپاک سے مسافر کو نہ صرف راستہ بتاتے ہیں بلکہ اس کو چائے کی پیشکش بھی کرتے ہیں۔ یہ صرف پہاڑوں پر رہنے والے کسانوں کی بات نہیں، شہر اور قصبوں میں رہنے والے لبنانی بھی اتنے ہی مہمان نواز، خوش گفتار اورملنسارہیں‘ آج سے سترہ سال پہلے دمشق میں اپنی تعیناتی کے دوران ہم اکثر بیروت جایا کرتے۔ گاڑی سے ایک شہر سے دوسرے شہر جانے میں ڈھائی گھنٹے لگ جاتے لیکن راستہ خوبصورت اوربیروت دیکھنے کی جگہ تھی۔ شام میں صرف مقامی چیزیں ملتی تھیں جواچھی اورسستی ہوتیں لیکن پھربھی لوگ باہر کی بنی ہوئی اشیا ء خریدنے لبنان جاتے۔ غیر ملکی خوردونوش کے سلسلے جیسے میکڈونلڈ، کے ایف سی اور پیزہ ہٹ وغیرہ بھی شام میں نہیں تھیں لیکن بیروت میں ان کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ شام میں بیرونی کرنسی رکھنے پرسخت پابندی تھی جبکہ لبنان میں غیر ملکی اشیا بھی ملتیں اورکسی بھی ملک کی کرنسی کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ دمشق سے لبنان آنے والے شخص کوایسے محسوس ہوتا جیسے کسی الگ دنیا میں آگیا ہے۔ لبنان کی سرحد دمشق سے تیس چالیس منٹ کے فاصلے پر تھی۔ کئی لوگ یہاں تک آکر سرحدی قصبہ شطورہ میں خریداری کرکے لوٹ جاتے۔ عام طور پردمشق کے متمول افراد اختتام ہفتے یعنی جمعہ کو بیروت جاتے اور اہل بیروت اتوار کو دمشق آتے۔ شام میں ہفتہ وار چھٹیاں جمعہ ہفتہ اور لبنان میں ہفتہ اتوار کو ہوتی تھیں۔ خوردونوش اور مقامی طور پر تیارکردہ اشیا ء دمشق میں اور غیر ملکی اشیاء لبنان میں سستی ملتی تھیں۔دنیائے عرب کے اہل ثروت افراد لبنان آتے اوریہاں طویل قیام کرتے۔ لبنان کی معیشت میں ایک اہم حصہ سیاحت کا تھا۔قدرتی حسن سے مالامال عالم عرب کا یہ ملک آج شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ عالمی بینک کے مطابق کئی صدیوں کے بعد یہ دنیا کے کسی ملک کا سب سے شدید معاشی بحران ہے۔ افراط زر حالیہ مہینوں میں دو صد فی صد سے بڑھ گئی ہے۔ بینک لوگوں کو انکی رقوم غیر ملکی کرنسی میں دینے سے معذرت کررہے ہیں۔ لبنانی لیرا کے قدر میں ڈالر کے مقابلے میں دو سال میں نوے فیصد کمی آئی ہے۔ خوراک کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ تین تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے گررہی ہے۔ ایک تہائی آبادی کو دوائیاں تک ملنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ بجلی اور گیس کی قلت ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ دس لاکھ سے زیادہ شامی بھی لبنان میں پناہ گزین ہیں۔ دنیائے عرب میں پڑھا جانے والا عربی روزنامہ السفیربند ہوا، المستقبل اور النہاربند ہوئے اور ستر سال سے شائع ہونے والا انگریزی روزنامہ لبنان سٹار بھی اپنی اشاعت جاری نہ رکھ سکا۔ اس ملک نے جنگیں دیکھیں، ایک طویل خانہ جنگی سے دوچار ہوا لیکن سنبھل گیا، مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہوا اور تباہ حال معیشت کو پھرسے مستحکم کیا۔ اس میں لبنان کے مخیر حضرات نے اور باہمت لبنانی عوام نے بھرپور کردار ادا کیا تھا اب پھر وہ آزمائش سے دوچار ہیں اور امید ہے کہ ان حالات سے سرخرو ہوکر نکلیں گے۔