ڈھولک کی تھاپ 

 یہی ماہِ رواں ہے۔شادیوں کے دھوم دھڑکے ہیں۔ اوپر تلے اور لگا تار بیاہوں کے شادیانے بج رہے ہیں۔کیونکہ پھر یہی بہا ر کا مہینہ گذرا تو سورج کے تیور کچھ کے کچھ ہو جائیں گے۔اب تو دن بھر اگر سورج کی گرمی موجود رہتی ہے تو پھر بھی کہیں کہیں ہلکی پھلکی سردی کا گمان گذرتا ہے۔کیونکہ آسمان کے نیلے کینوس پر کبھی بادلوں کے برش لگ جاتے ہیں تو ہواٹھنڈی ہو جاتی ہے۔جس کو دیکھو کاندھے اور گردن اور کوئی پورے جسم میں درد کی شکایت کرتا ہے۔وجہ یہی ہے کہ نہ پورے طور سردی اور نہ ہی پوری کی پوری گرمی ہے۔کبھی گرما اور کبھی سرما کاعالم ہے۔پنکھا لگا کر سوگئے توصبح دم پورا جسم اکڑا ہوتا ہے۔سب کو خوشیا ں نصیب ہوں۔ مگر یہاں تو عالم یہ ہے کہ شادی ہال مزید بکنگ نہیں دے رہے۔کیونکہ فیملیاں شادی ہالوں سے رجوع کر رہی ہیں۔وہ اپنی اولاد کو شادی کے بندھن میں بندھا ہوا دیکھنا چاہتی ہیں۔بلکہ میں کہوں جکڑاہوا دیکھنے کی کوشش ہے۔اچھی بات ہے۔مگر آگے اپریل کا مہینہ ہے۔ہمارے پشاور میں سردی کے آخر میں اپریل کم سردی اور گرمی کے شروعات کا مہینہ ہوتا ہے۔یہاں اس ماہِ رواں میں شادیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔مگر چونکہ عوام جانتے ہیں کہ اس سال اس ماہ رمضان کی بہاریں ہو ں گی۔اس لئے بعض لوگوں کو بہت جلدی ہے۔وہ اپریل سے پہلے پہلے بیٹی یا بیٹے کی شادی کی خوشی دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں اس لئے ابھی اپریل کی شروعات میں ہفتہ دس دن باقی ہیں۔ ان ایام میں ہمارے بھائی لوگ اس گنجائش سے بھرپور فائدہ لے کر شادیوں کے ڈھول پیٹ رہے ہیں۔شادی ہالوں میں صرف خالی ہال ہی مل جائے تو اچھا۔ کیونکہ خالی خولی شادی ہال بھی تو دو لاکھ یا اس سے زیا دہ میں ملتاہے۔باقی جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا ہوگا۔ پھر اسی کو سامنے رکھ کر جتنا گڑ چھپاؤ اتنا پھیکا ہوگا۔ جیب ہلکی کرو تو اچھا شادی ہال مل جائے گا جس میں اپنی پسند کاکھانا اگر اپنے مہمانوں کوکھلانامقصود ہو تو اس پر زیادہ اخراجات اٹھیں گے۔یہ بڑے پینڈوں کے فاصلے ہیں جو چار و ناچار عبور کرنا ہوتے ہیں۔ سستے شادی ہال بھی مل جاتے ہیں جن پر تیس ہزار سے زیادہ تک خرچہ آ جائے گا۔ مگر خود شادی کے گھر والے بہ امر مجبوری ساری جمع پونجی نکال کر اور کہیں گہنے وغیرہ بیچ باچ کر یا کوئی پلاٹ فروخت کر کے شادی کی اس جلتی چتا کی روشنی میں جھونک دیتے ہیں۔تاکہ لوگ یہ شادی یاد رکھیں۔پھر واقعی میں ایسا ہے بھی۔کہیں اچھا ہال ہو اور پھر اوپر سے اچھاکھانا ہو تو مہمانوں کوبرسوں یاد رہتا ہے کہ مزا تو فلاں شادی میں آیا تھا۔مگر جہاں غریبانہ پیش کش ہو وہاں لوگ کھانا بھی کھا رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ درو دیوار سے کیڑے نکالتے ہیں او رکھانوں پکوانوں پر اعتراضات کرتے ہیں۔اب تو شادی ہالوں کا جو رواج چل نکلا ہے۔اس میں اگرچہ کہ لاگت زیادہ اٹھتی ہے۔مگر ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ میری اولاد کی شادی دھوم دھام سے ہو۔ پھر شہر کے سب سے مہنگے ہال میں ہو۔مگر اس طرف بھی نگاہ کیجئے کہ یہا ں شادی ہالوں کو توچھوڑ گھروں میں بھی کسی کی اتنی توفیق نہیں کہ وہ بیٹے بیٹی کا بیاہ رچا سکیں۔ان کے اپنے گھر میں کھانے جوگی روٹی نہیں تو دوسرں کو کیا کھلا سکیں گے۔۔سو کتنی گوری پیشانیوں والیاں سیاہ نصیب لئے کالے توے پرروٹیاں پکاتی اور لکڑیوں سے جلتی آگ کو منہ سے پھونکیں مارتی رہ جاتی ہیں۔ان کی آنکھوں میں جو دھواں بھر جاتا ہے اور پھر اس دھوئیں سے آنکھوں کے ڈورے سرخ ہو جائیں تو یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ دھوئیں سے آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں۔ پھر کچھ مدت کے بعد ان کے سیاہ بالوں میں چاندی کے تار چمکنے لگتے ہیں۔جب وہ شادی کی عمر سے گذرنے لگتی ہیں تو ماں باپ جاں سے گذرجاتے ہیں۔ہمارے معاشرے کی یہ اونچ نیچ تب سے تھی اور اب تک ہے۔مانا کہ غریب بچیوں کے لئے کوئی نہ کوئی اہلِ دولت نکل آتا ہے۔مگر بیشتر غریب بچیوں کی سماعتیں اپنی مایوں کے لئے ڈھولک کی تھاپ کی آواز کو ترس جاتی ہیں۔بیشتر  بچیاں تو گھروں میں جانوروں کی سی زندگی بس کر رہی ہیں۔ان کے ہاتھ مہندی کی خوشبو سے خالی رہتے ہیں۔لمحہ بھر ان غریبوں کا خیال کریں تو مفلوک الحال فیملیوں میں کسی غریب اور چاند صورت بچی کی شادی کے لئے رقم جمع کرسکتے ہیں۔