ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی سے تنازعہ اور گیارہ ارب ڈالر کا جرمانہ ختم ہونے پر وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں کہا ہے کہ ”دس سال کی قانونی لڑائیوں اور گفت وشنید کے بعد ریکوڈک کان کی ڈویلپمنٹ کے لئے ’بیرک گولڈ‘ نامی کمپنی کے ساتھ کامیاب معاہدے پر پاکستان اور بلوچستان کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ تقریباً گیارہ ارب ڈالر جرمانہ ختم ہوا ہے‘یہ رقم بلوچستان کی ترقی پر خرچ کی جائے گی۔ 1993ء میں حکومت پاکستان نے آسٹریلوی کان کنی کمپنی ”بی پی ایچ بلیٹن“ کے ساتھ ریکوڈک کان میں سونے اور تانبے کی تلاش اور کان کنی کیلئے چاغی کے پہاڑوں میں مشترکہ کھوج کا معاہدہ (وینچر ایگریمنٹ) کیا تھا۔ مذکورہ معاہدے کے مطابق پچھتہر فیصد منافع آسٹریلوی کمپنی جبکہ پچیس فیصد منافع باہمی سرمایہ کاری کی بنیاد پر دو فیصد رائلٹی کی ادائیگی کے ساتھ پاکستان کو ملنا طے پایا تھا۔ بعد ازاں اپریل 2000ء میں ’بی ایچ پی‘ نے اپنی ذمہ داریاں مذکورہ نسبتاً غیر معروف آسٹریلوی کمپنی کے حوالے کر دیں جسے ٹیتھیان نامی کمپنی نے 2006ء میں خرید لیا اور بلوچستان حکومت نے معاہدے کی خلاف ورزی کے جواز پر معاہدہ ختم کر دیا۔ اس وقت تک ریکوڈک نامی کان میں مبینہ طور پر بائیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا چکی تھی۔ ٹیتھیان کمپنی یہ مقدمہ عالمی عدالت (انٹرنیشنل سنٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ) کے پاس لے گئی جہاں ایک بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل نے بارہ جولائی دوہزاراُنیس کو پاکستان پر چھ ارب ڈالر جرمانہ عائد کیا اور عدالت نے پاکستان سے کہا کہ وہ ٹیتھیان کمپنی کو چار ارب ڈالر سے زائد ہرجانہ اور ایک اعشاریہ سات ارب ڈالر سود ادا کرے جو مجموعی طور پر قریب گیارہ ارب ڈالر ہے۔
کورونا وبا نے جہاں دنیا کی بڑی معیشتوں کا بھٹہ بٹھا دیا تھا‘ وہیں پاکستانی معیشت بھی زبوں حالی کا شکار ہوئی۔ ایسے میں پاکستان کے لئے گیارہ ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا لیکن پاکستان اِس گیارہ ارب ڈالر کے جرمانے کے خلاف قانونی جنگ لڑتا رہا اور بالآخر دس سال کی قانونی چارہ جوئی (تگ ودو) کے بعد یہ تنازع ختم ہوگیا۔گوکہ پاکستان اور ٹیتھیان کی طرف سے ریکوڈک کیس میں پچاس فیصد شیئرز پر اتفاق کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان پر دس ارب ڈالر جرمانہ عائد کرنے کا خطرہ ٹل جائے گا۔ جرمانے کی صورت میں اتنی بڑی رقم پاکستانی معیشت پر بہت بڑا بوجھ بنی رہی جس کے ہٹنے سے اب معیشت میں بہتری آنے کی اُمید ہے اور یہ پیسہ اب بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کے لئے خرچ ہوگا‘ جس کی انتہائی ضرورت ہے وقت ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی اور بلوچ عوام میں پایا جانے والے احساس محرومی کا ازالہ کیا جائے۔ریکوڈک کے حوالے سے نئی مفاہمت کی مکمل تفصیلات منظر عام پر آنا باقی ہیں لیکن کم از کم اتنا تو معلوم ہو چکا ہے کہ پاکستان اب گیارہ ارب ڈالر جیسا بڑا جرمانہ ادا نہیں کرے گا۔ معاہدے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیرک گولڈ اس منصوبے میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جس سے آٹھ ہزار ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ ان میں سے کتنے وعدے حقیقت میں پورے ہوں گے یہ آنے والا وقت ہی بتا ئے گا۔یہ دعویٰ کہ ریکوڈک دنیا کی سب سے بڑی تانبے اور سونے کی کان ہو گی یا ملک کو قرضوں کی زنجیر سے نجات دلانے اور ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز کرنے کے بارے میں بھی کچھ کہنا قبل از وقت لگتا ہے۔
پاکستان میں قومی وسائل کی قطعی کوئی کمی نہیں اور جہاں تک ریکوڈک کی بات ہے کہ تو گزشتہ کئی برس سے اِس بات کا دعویٰ ہو رہا ہے کہ یہ خزانہ پاکستان کے لئے ’گیم چینجر‘ ثابت ہوگااگرچہ ہر کوئی چاہتا ہے کہ ریکوڈک منصوبہ کامیاب ہو لیکن مبالغہ آرائی کے ساتھ لمبے چوڑے دعوے کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس وقت‘ اس منصوبے کے حتمی نتائج سے قطع نظر‘ گیارہ ارب جرمانے سے بچنا یقینی طور پر بڑی کامیابی دکھائی دے رہی ہے اور اب ترقی کی ایک ’ٹائم لائن‘ چاہئے۔ بلوچستان پسماندہ ہے۔ دستیاب تفصیلات کے مطابق بیرک گولڈ کارپوریشن کو کان کی آمدنی سے نصف حصہ ملے گا جبکہ بلوچستان حکومت کو ایک چوتھائی حصہ ملے گا بقیہ پچیس فیصد سرکاری ملکیتی اداروں جیسا کہ او جی ڈی سی‘ پی پی ایل اور گورنمنٹ ہولڈنگز کو جائے گا۔ شکوک و شبہات سے بالاتر یہ معاہدہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے‘ خاص طور پر موجودہ حکومت کیلئے جو معاشی اور سیاسی دونوں محاذوں پر اپنی بقا کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔