سہولت یا مصیبت 

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ دوران ڈرائیونگ اس کا استعمال انتہائی نامعقول ہے۔کہیں رک جائیں اور خوب لطف اندوزہوں مگرگاڑی چل پڑے اور آپ ہی ڈرائیونگ سیٹ پر ہوں تو پھرموبائل استعمال نہ کریں۔کیونکہ ایسے میں ہاتھ پاؤں ٹوٹنے کا نقصان تو اپنی جگہ مگر جان چلے جانے کا ڈر بھی ہے۔ ہماری قوم کو جتنا نصیحت وصیت کر لیں یہ نہیں مانے گی۔ جتنا اس کو سمجھاؤ یہ مخالفت کرے گی۔”عشق کے کھیل میں ہوتا ہے بہت جی کازیاں۔ عشق کوعشق سمجھ مشغلہ ئ دل نہ بنا“۔ جب یہ مشغلہ یہ جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے تو بندہ کو کچھ اور نہیں سوجھتا۔گھرمیں سب کے پاس اپنا اپنا موبائل ہے۔شکر ہے کہ ننھے میاں کو احساس ہے۔ وہ کمرے موجود رہ کر فلم بھی دیکھ رہا ہے اور کانوں میں ٹونٹیاں بھی لگا رکھی ہیں۔اسی کشکمش میں وہ نیچے دکاندار سے سودا سلف بھی لا رہاہے۔دوڑ دوڑ کر آنے کی صورت میں کمرے میں پڑا گلاس اس کے پاؤں کی ٹھوکر سے سیدھا جا کر دیوار سے ٹکرایا اور چکنا چور ہوگیا۔ کیونکہ اس کو جلدی تھی کہ جا کر ایک کونے میں دبک کر بیٹھ جاؤں۔ مگر سودالانے کے دوران میں اس نے لمحہ بھر کو بھی کانوں سے ٹونٹیاں جدا نہیں کی تھیں اور نظریں موبائل سکرین سے ہٹائی نہ تھیں۔ یہ گلاس اسی لئے تو ٹوٹا۔کہنے لگا یہ گلاس کس نے راستے میں رکھا ہے۔اس کو خیال نہیں کہ میں موبائل پر لگی فلم کیوں دیکھ رہا تھا نیچے کیوں نہ دیکھا۔اب کانچ ہے پاؤں کو زخمی بھی کر سکتا تھا۔
اب تو فیصلہ کرناممکن نہیں رہا کیا موبائل بہتر ہے یا غلط ہے۔ کیونکہ اس میں جہاں وقت ضائع کرنے کا باعث ہے وہا ں یہ ڈیوائس انسان کیلئے بہت کار آمد شئے بھی تو ہے۔میں تویہی کہوں گا یہ اچھی چیز ہے۔ اس میں دنیاجہان کی معلومات ہیں۔تعلیم کیلئے اس میں بہت کچھ ہے۔کچھ سیکھناہے تویہ سکھلاتاہے۔ہر ہنر مند کے یہ کام آ رہاہے۔خبریں ہیں۔ جس معاملے کی اصل کہانی دیکھنا ہو تو موبائل اٹھاؤ آپ کو وہاں اس واقعہ کی اصل حقیت کا علم ہو جائے گا۔استعمال کرنا نہ بھی آتا ہو مگر مہنگا موبائل سٹیٹس سیمبل بن چکا ہے۔بلکہ جس کے پاس موبائل نہ ہو وہ عجیب لگتا ہے۔کیونکہ زمانے کی ہوا جس رخ پر چل رہی ہے اسی رخ پر جانا ہے۔وگرنہ کوئی تو احمق کوئی بیوقوف کہے گا۔ یہ اور وباؤں سے زیادہ تیز ہے۔جو ایک سے دوسرے کو اور دوسرے سے پانچویں کو لگ رہی ہے۔ممکن نہیں کہ اس سے نجات کا کوئی راستہ دکھائی دے جائے۔ بلکہ یہ تو ایسی بیماری ہے کہ جس میں ہر آدمی از خود پھنسنا چاہتا ہے۔اب تو جس کے ہاتھ میں دیکھو موبائل فون ہے۔جس میں کال کرنے سے ہٹ کر بے شمار قسم کی اور سہولیات ہیں۔بچے بوڑھے نوجوان خواتین یہ سب کے برابر کام آرہاہے۔نت نئے ماڈل متعارف ہو رہے ہیں۔اس کی نئی نئی قیمتیں ہیں جو آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔وہاں کمرے میں سب بیٹھے تھے۔مگر کمال یہ ہے کہ وہ سب خاموش تھے۔ایسا تو نہیں ہوسکتا۔ مگر سب کے ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگی تھی۔
موبائل کے اندر کے آدمی کے صرف ہاتھ ہم سے دور ہیں جو نہیں ملائے جا سکتے ورنہ تو موبائل کے ذریعے اب دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے سے منسلک ہو چکے ہیں۔جیسے موتی ہوں جو ایک لڑی میں پروئے گئے ہوں۔ایک دوسرے سے باہم مگر ایک دوسرے دور۔ جسم دور مگر دل ودماغ ملے ہوئے۔دکاندار کے اگر کوئی گاہک نہیں تو وہ فارغ نہیں ہے۔وہ موبائل میں گھسا ہوا ہے۔اس کی آنکھیں رہن رکھی جا چکی ہیں۔ حالانکہ دکانداری ایسے نہیں ہوتی۔گاہک نہ بھی ہو تو بازار کی طرف نگاہ رکھنا پڑتی ہے۔تاکہ جاتے ہوئے گاہک کو نگاہوں کی مقناطیست کے ذریعے گھیرا جا سکے۔ مگر لگتا ہے کہ خود دکاندار حضرات ان اصولوں سے منہ پھیر رہے ہیں۔وہ جو مصروف ہیں اور کسی بھی حال میں ہیں ذرا بھر فراغت ملتی ہے تو جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائل نکال لیتے ہیں۔یہ ایسا وائرس ہے جس میں لوگ تیزی سے مبتلا ہو رہے ہیں۔اگر کسی کے پاس موبائل نہیں بھی وہ دوسرے کا موبائل لے کر اس سے کھیل رہا ہے۔اندر اندر وہ کھیل تماشے ہیں کہ جو چاہو نکال کر دیکھو۔اگر آپ رکشے میں جا رہے ہیں تو راستے میں دائیں بائیں دیکھتے جائیں۔
آپ کو موبائل کے استعمال کے رنگا رنگ نظارے آنکھوں تلے آئیں گے۔طالب علم ہے تو اس کے چنگل میں گرفتا رہو چکا ہے اور استاد ہے تو وہ اس کو استعمال کر رہا ہے۔اس کے اندر اس نے کتاب کھول رکھی ہے۔ اس کالیکچر اسی میں سے تیار ہو رہا ہے۔ سڑک پر جاتی ہوئی گاڑیوں میں تو خاص یہی چیز ان کی ڈرائیونگ میں خلل انداز ہے۔ان ڈرائیور حضرت نے عبث ماحول میں آ لودگی پھیلا رکھی ہے۔کہیں ان کی وجہ سے رش ہے۔جب آگے جا کر غور سے دیکھو تو ان کے کان کے ساتھ موبائل لگا پڑا ہے۔ رکشہ والاہے تو وہ بھی موبائل استعمال کررہا ہے۔سواری کے انتظار میں اگر کہیں کھڑا ہے تو بوریت دور کرنے کوا س کی سکرین سے دل لگا بیٹھا ہے۔تعلیمی اداروں میں اس کے استعمال پر پابندی لگائی گئی ہے۔مگر اس اصول کی پاسداری نہیں ہو رہی۔ہر طالب علم کے پاس بیش قیمت موبائل ہے۔کیونکہ اس وائرس کو کسی طرح بھی روکا نہیں جا سکتا۔