روس اور یوکرین کے درمیان جنگ اور مذاکرات ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ مذاکرات میں پیش رفت کی رفتار سست ہے۔ تاہم حالات نے جس طرح پلٹا کھایا ہے اس کے پیش نظر فریقین اور ثالث پرامید ہیں کہ مفاہمت اور جنگ بندی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ترک وزیر خارجہ چاوش اولو، جنہوں نے پچھلے ہفتے یوکرین اور روس کا دورہ کیا تھا، کے مطابق دونوں ممالک اہم مسائل پر معاہدے کے قریب ہیں اور اگر وہ اب تک کی پیش رفت سے پیچھے نہ ہٹیں تو جنگ بندی کی امید ہے۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زلنسکی کے مطابق روس کے ساتھ امن مذاکرات اب پہلے سے زیادہ حقیقت پسندانہ اور مثبت لگ رہے ہیں۔ یوکرین کے صدارتی مشیر میخائیلو پوڈولیاک کے خیال میں آنے والے دنوں میں جنگ بندی ہو سکتی ہے کیونکہ روسی افواج پھنسی ہوئی ہیں جبکہ روس کے صدارتی ترجمان دیمیتری پیسکوف نے کہا کہ یوکرین روس کے ساتھ امن معاہدے پر ایک سے دو ہفتے میں دستخط کردے گا اور یہ کہ یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات آسان نہیں ہیں لیکن ان میں مثبت پیش رفت ضرور ہوئی ہے۔روسی اہلکار کہتے ہیں ان کے مذاکرات کاروں نے اب تک یوکرین کے ساتھ مذاکرات میں صلح کیلئے پوری کوشش کی ہے لیکن ابھی تک مفاہمت نہیں ہوئی ہے۔
روسی صدر پیوٹن نے جرمن چانسلر اولف شولز سے فون پر کہا کہ یوکرین غیر حقیقی مطالبات کر رہاہے جس سے مذاکرات کا عمل سست پڑگیا ہے۔فنانشل ٹائمز کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان پندرہ نکاتی فارمولے پر اتفاق ہوگیا ہے جن کے تحت روس جنگ بندی کرکے اپنی فوج یوکرین سے نکال دے گا جب کہ یوکرین نیٹو میں شامل نہ ہونے اور کسی بھی مغربی ملک کو فوجی اڈے نہ دینے کی ضمانت دے گا۔اور تازہ ترین خبروں کے مطابق یوکرین کے صدر زیلنسکی نے بھی اقرار کیا ہے کہ روس کے ساتھ امن کیلئے نیٹو میں شمولیت کا دروازہ بند ہوتا نظر آرہا ہے۔دوسری طرف صدر زلنسکی مسائل کے حل کیلئے صدر پیوٹن کے ساتھ بلاواسطہ مذاکرات چاہتے ہیں لیکن پیوٹن کے خیال میں ابھی اس کا صحیح وقت نہیں آیا جبکہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا روس ترکی کی ثالثی میں یوکرین سے اعلی سطحی مذاکرات جاری رکھنے پر آمادہ ہے مگر ہم ان میں صرف تب دلچسپی لیں گے جب ان سے ٹھوس نتائج برآمد اور موجودہ مسائل حل ہونے کی امید پیدا ہو۔ دونوں ملکوں میں مختلف سطح پر پانچ بار مذاکرات ہوئے ہیں مگر ابھی تک مفاہمت اور مستقل جنگ بندی نہیں ہو سکی البتہ کچھ علاقوں میں عارضی و محدود جنگ بندی اور عام لوگوں کے محفوظ انخلا کی انسانی راہداریوں کے قیام پر اتفاق ہوا تھا مگر محفوظ انخلا بعض جگہوں پر نہ ہوسکا جس کیلئے فریقین ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
روس کے مطالبات یہ ہیں کہ یوکرین ہتھیار ڈال دے، ڈونیٹسک اور ماکیوکا کے شہروں کے خلاف جنگی کاروائیاں روک دے، اپنی غیرجانبدار حیثیت ثابت کرنے کے لئے اپنے آئین میں ترمیم کرے، اپنی فوج کا حجم کم کردے، کریمیا کو روس کا حصہ مان لے اور ڈونیٹسک اور لوگانسک کو آزاد ریاستیں تسلیم کرلے تو وہ جنگ بند کردے گا۔ روس یہ بھی چاہتا ہے کہ یوکرین، جارجیا، فن لینڈ اور سویڈن کو نیٹو میں شامل نہ کیا جائے، نیٹو مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ترک کردے، پولینڈ، ایسٹونیا، لیٹویا اور لتھوانیا سے اپنی افواج اور پولینڈ اور رومانیہ وغیرہ سے میزائل نظام ہٹادے اور 1991 سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلا جائے۔یوکرین کے بنیادی مطالبات جنگ بندی اور روسی فوجیوں کا انخلا ہیں۔ وہ مستقبل میں ایسی کسی مہم جوئی کے خلاف اپنے لیے چند یورپی اتحادیوں کی قانونی حفاظتی ضمانتیں بھی مانگ رہاہے۔یوکرین کو بھی معلوم ہوگیا ہے کہ نیٹو اسے رکن نہیں بنانا چاہتا اس لیے اس سے اتحاد اور وابستگی پر اپنے پڑوسی سے تعلقات بگاڑنا حماقت ہے۔ پھر دنیا کی تیس فیصد گندم، سترہ فیصد مکئی اور پچاس فیصد سے زیادہ سورج مکھی کا تیل یوکرین اور روس سے آتے ہیں۔ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق اس سال جنگ کی وجہ سے تقریبا تیس فیصد گندم کم کاشت ہوگی۔ اور یہ جنگ اگر چند ہفتے مزید جاری رہی تو عالمی قحط اور خوراک کی کمی درپیش ہو سکتی ہے۔ اس لیے مفاہمت اور جنگ بندی ضروری ہے۔پھر اگر ایک طرف صدر پیوٹن نے دکھا دیا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کیلئے جنگ سے دریغ نہیں کرتے جس سے مغربی ممالک ان سے معاملات میں اب مزید احتیاط کیا کریں گے تو دوسری طرف امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ اور کینیڈا کی سخت پابندیوں اور یوکرین کی سخت مزاحمت نے صدر پیوٹن کو بھی یقینا مزید محتاط بنادیا ہے۔ انسانی جانوں اور معیشت کا معتد بہ نقصان ہوچکا ہے اور اب مزید تباہی، نقصان اور ہزیمت سے بچنے کیلئے فریقین اور جرمنی و فرانس سمیت چند یورپی ممالک جلد مفاہمت کیلئے کوشاں ہیں۔ جبکہ خوش قسمتی سے حالات نے جو کروٹ لی ہے اس نے روس اور یوکرین دونوں کو حقیقت پسندی اور لچک کی طرف دھکیل دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر زلنسکی نے اشارہ دیا ہے کہ کریمیا اور صوبے دونیسک اور لوہانسک کی حیثیت پر بھی بات چیت کی جا سکتی ہے۔ تاہم ان کے بقول کسی بھی امن معاہدے کو یوکرین میں ریفرینڈم کیلئے ضرور پیش کیا جائے گا۔روس کو خدشہ ہے کہ مغربی ممالک یوکرین کو روس کی نگرانی اور مستقبل میں روس مخالف کاروائیوں اور اپنے جدید ہتھیاروں اور افواج کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اگر اسے یوکرین کی غیر جانبدار حیثیت پر یقین دہانی دی جائے تو شاید وہ جلد یوکرین پر حملہ روک کر اپنی فوج واپس کردے گا۔اگر روس پہلے جنگ بندی کرلے تو یوکرین مستقبل میں غیر جانبدار یا غیر وابستہ رہنے کا وعدہ کرسکتا ہے۔ تاہم روس اور یوکرین کے سارے مطالبات پورا ہونا اگر ایک ساتھ اور جلد ممکن نہ ہو تو ان پر مستقبل میں عمل درآمد کی یقین دہانی کے بعد بھی معاہدہ ہونے کا امکان موجود ہے۔ابھی تک روس نے مفاہمت کیلئے خود پر پابندیوں کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کیا مگر غالبا وہ جلد ایسا چاہے گا۔فی الحال ترکی اور اسرائیل روس اور یوکرین کے درمیان مفاہمت کیلئے ثالثی کررہے ہیں مگر وہ ناکام رہے ہیں۔ بظاہر اب امریکہ کو چین سے ثالثی کی درخواست کرنا ہوگی کیوں کہ اس کے روس اور یوکرین دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔