سیاسی فیصلہ سازی: قومی ترجیحات

موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہمارے جوابی اقدامات و انتظامات  ناکافی ہیں ا جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کثیر الجہتی ہیں اور اِن سے نمٹنے کیلئے حکومت ہی نہیں بلکہ دیگر معاشرتی طبقات کی کوششوں اور بالخصوص ادارہ جاتی سطح پر انتظامات کی ضرورت ہے۔ لائق توجہ امر یہ بھی ہے کہ تحفظ ماحولیات کے لئے وفاقی سطح پر جو حکمت عملیاں (پالیسیاں) بنائی جاتی ہیں یا عالمی سطح پر جن اقدامات کو کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے اُن پر عمل درآمد اہم ہے۔ جون 1992ء کی بات ہے جب ریو میں منعقدہ ”ارتھ سمٹ“ میں پاکستان نے شرکت کی۔ اِس اجلاس کی سربراہی چین نے کی تھی اور اِس کے نتیجے میں بعدازاں ’یو این فیم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کا حصہ بنا گیا۔ 1984ء میں پاکستان نے عالمی موسمیاتی کنونشن کی بھی توثیق کی لیکن اس کے بعد ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔ تحفظ ماحول کے سلسلے میں عالمی سطح پر پاکستان کے کردار کو سراہا جاتا ہے لیکن برسرزمین صورتحال (حقیقت) یہ ہے کہ 2012ء میں منظور کی گئی مذکورہ موسمیاتی پالیسی مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکی ہے۔ مذکورہ عالمی معاہدے کی توثیق کا مطلب یہ ہے کہ کہ رکن ممالک ایسے اقدامات کریں گے جن سے موسمیاتی تبدیلیاں کم ہوں گی ایک حالیہ عالمی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں فضائی آلودگی کی شرح 2021ء کے مقابلے پہلے سے زیادہ رہی۔ ”آئی کیو ائر“ نامی رپورٹ میں ماحول کو زیادہ سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
 ذہن نشین رہے کہ ”آئی کیو ائر“ وہ کمپنی ہے جو عالمی فضائی معیار اور اِس میں ہونے والی تبدیلیوں پر مسلسل نظر رکھتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے دنیا کے ہر ملک اور 97 فیصد بڑے شہروں میں اوسطاً فضائی آلودگی کی شرح عالمی ادارہئ صحت کی فضائی معیار کی گائیڈلائنز سے زیادہ ہے یعنی دنیا کے صرف 3 فیصد شہر ایسے ہیں جن کی فضا آلودہ نہیں! اِس قسم کی رپورٹیں اور عالمی سطح پر جاری ہونے والی ہدایات (گائیڈلائنز) کا مقصد اُن حکومتوں کو قوانین کی تیاری میں مدد فراہم کرنا ہوتا ہے جو فضائی آلودگی سے عوامی صحت کو تحفظ فراہم کرسکیں۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق 6475 شہروں میں سے صرف 222 کے اوسط فضائی معیار کو ’عالمی ادارہ صحت‘ کے معیار کے مطابق ’محفوظ‘ قرار دیا گیا ہے۔ اِن اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے فیصلہ سازوں کو دیکھنا ہے کہ اگر دوسوبائیس ممالک کی فضا عالمی معیار کے مطابق محفوظ ہے تو عالمی ہدایات پر عمل درآمد کر کے پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں کی فضا کو بھی مثالی بنایا جا سکتا ہے کیا یہ امر پاکستان کے لئے تشویش کا باعث نہیں ہونا چاہئے کہ فضائی آلودگی سے ہر سال پاکستان میں بھی ہلاکتیں ہوتی ہیں جبکہ گرمی کی شدت بڑھنے کی وجہ سے زیادہ توانائی کی ضرورت کے باعث عوام اور حکومت دونوں پر بوجھ ہے اور اگر فضائی آلودگی میں کمی لائی جائے جس کے لئے صنعتوں اور گاڑیوں سے دھویں کے اخراج میں کمی لائی جائے تو نہ صرف موسم کی وجہ سے ہونے والی اموات میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے بلکہ اِس سے ناراض موسموں کو بھی منایا جا سکے گا‘ جو روٹھ گئے ہیں یعنی اب پاکستان میں موسم سرما کے بعد بہار کا دورانیہ چند دنوں کا رہ گیا ہے جبکہ گرمی کے مہینوں کا عرصہ بھی زیادہ ہو گیا ہے‘ جس کی وجہ سے متاثرین میں زرعی شعبہ (زراعت) بھی شامل ہے۔