سرِ راہ چلتے چلتے 

وہ ا س میں بکریاں لاد کر کہیں سے لا رہے تھے یا کہیں لے جا رہے تھے۔یہ ایک سوزوکی پک اپ تھی۔ جو رنگ روڈ پر دوڑ رہی تھی۔میں اسی سڑک پر رواں دواں تھا۔ مگر شکر ہے کہ سپیڈ والے ہاتھ کو قابو میں رکھا تھا۔اس ہاتھ کو تیز رفتاری پر کنٹرول حاصل ہے۔۔کچھ حادثات خود اپنے ساتھ پیش آئے۔ناحق کی چوٹیں کھائی ہیں۔صاف صاف اگلے کی غلطی تھی۔ہم تو اپنا سیدھے جا رہے تھے۔پھر اپنی غلطی مانتا کون ہے جو اب ہم مانیں گے۔ان آنکھوں نے سڑکوں پر وہ ایکسیڈنٹ دیکھے کہ اب روڈ پر ہمارا رویہ انتہائی احتیاط والا ہے۔اتنا کہ خود ہماری پچھلی سواری چلا اٹھتی ہے کہ تم اتنی آہستہ رفتا رسے جارہے ہو۔وہاں شادی ہال میں سب خواتین آ چکی ہوں گی۔میں عرض گذارتا ہوں ڈرائیور کو تیز رفتاری پرمجبور مت کرو۔ اگر کچھ ہوگیا تو اس کی ذمہ داری تم پر آئے گی۔کیونکہ سپیڈ سے چلانے کو تم نے کہا تھا۔پھر ہم نے بال بچوں سمیت لوہے کے گھوڑے پر سے وہ قلابازیاں کھائیں او رایک طرف جا گرے کہ اب اس عمر میں احتیاط کا آ جانا اندازے سے باہر نہیں ہو سکتا۔ہڈیاں تڑوانے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔مگر اب ہماری گئی گذری عمر والے تو بھولے سے ہڈی تڑوا بیٹھے تو بُھربھری ہڈیا ں بعد میں جڑ بھی نہیں سکتیں۔پھر بازو کو گلے کا ہار بنا کر گھومتے رہو۔ہم تو سڑک کراس کرتی ہوئی خاتون کو دیکھ کر آہستہ ہوگئے بلکہ گھبرا گئے۔ کیونکہ ا س نے بچے کی انگلی تھام رکھی تھی۔مگر سوزوکی والا دوڑتا چلا جا رہاتھا۔اس نے اس سہمی خاتون کے حواس باختہ ہونے کو انجوائے کیا۔وہ بیچاری سڑک پار کرنے کی کوشش میں عین درمیان میں آکر پھنس گئی تھی۔
 سوزوکی میں سوارنوجوانوں کے ہاتھ ایک تماشا لگ گیا۔وہ مزید شور کر کے اس کو ڈرانے کی کوشش میں تھے۔ یہ واقعہ تو پل جھل کا تھا۔ شاید پانچ سیکنڈ کا سین تھا۔مگر سوچنے کیلئے بہت وقت دے گیا۔میں گھر آ بھی گیا مگر میرا دماغ اور وہ سین وہیں اپنی جگہ ساکت و جامد ہو گئے۔اسی پک اپ کا ڈالاکھول کر دو سینئر بندے بھی براجمان تھے۔جن کے بالوں میں وقت کے مصور نے سفید برش پھیر دیئے تھے۔ان کا اپنے نو جوانوں کے شور کی طرف دھیان نہ تھا۔وہ دونوں پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے۔جیسے دریا میں پاؤں مار رہے ہوں۔ وہ منظر تو پیچھے کہیں گذر گیاتھا۔ مگر گاڑی ہماری آنکھوں کے سامنے آگے کی جانب چلی جا رہی تھی۔اس طرح کے ہزاروں واقعات وطنِ عزیز کی سڑک پر روزانہ پیش آتے ہیں۔کس قدر افسوس ناک رویہ ہے ہم جیسے لوگوں کا۔نہ تو خواتین کا احترام نہ بچوں کا خیال نہ ہی بوڑھے راہگیروں کی پروا۔بس دوڑتے جاؤ۔ میں نکل چلوں بعد میں آنے والا اس کو راستہ دے گا۔ مگر بعد میں آنے والا بھی تو پہلے نکل جانے والوں کی فہرست میں اپنے نام کااندراج کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ ایک مزدور جس نے دوبوریاں پیٹھ پر لاد رکھی تھیں۔نوجوان تھا مگر اس کو موقع نہیں دیا جا رہا تھا کہ وہ ٹریفک کی اس بھیڑ میں پار نکل جائے۔
ہماری نگاہوں میں یہ ایک اورسین بھی محفوظ ہے کہ تنگ چوک میں رات کے وقت ایک ٹرک پھنسا ہوا تھا۔ جو آگے پیچھے ہو کر اپنا راستہ بنا رہاتھا۔اونچا ٹرک تھا جس کا ڈرائیور اوپر کہیں کیبن میں بیٹھا ہوا تھا۔ یہ ٹرک ایک لحظہ پیچھے ہو کر آگے ہونے لگا تو اچانک ایک بائیک پر سوارچار نوجوان جلدی نکل جانے کی کوشش میں ٹرک کے آگے آئے۔وہ نکل جانا چاہتے تھے۔عین ٹرک کے آگے آکر مرتے مرتے بچ گئے۔ ڈرائیور کو نیچے نظر نہیں آتا تھا۔ پھر رات کاعالم بھی تھا۔وہ لڑکے ناگہاں موت سے بچنے کو چیخے کہ ڈرائیور تک ہماری آواز پہنچ جائے۔سڑک کے دو اطراف کھڑے لوگوں میں سے ایک آدمی نے ان کوتنبیہ کی۔ اس نے اس موقع پر کہاابھی آپ لوگ اگر زخمی ہو جاتے تو پھرکیا ہوتا۔نوجوانوں نے جو جواب دیا مجھے یاد رہ گیا۔انھوں نے کہا زخمی ہو جاتے تو ہم ہوتے ناتمہاراکیا ہے۔اس سے اندازہ لگائیں۔ ہم لوگ کس طرف جا رہے ہیں۔ تباہی کے گڑھے کی طرف بس دو ہاتھ پر ہیں۔اٹھلاتی جوانیاں قابو سے باہر ہوئی جاتی ہیں۔