پانی کی کمی کا ممکنہ بحران

ایک لمبے عرصے سے اس ملک سے محبت کرنے والے ملک میں ممکنہ پانی کے بحران کے خطرے کا رونا رو رہے تھے پر مجال ہے کہ ارباب بست وکشاد نے اس طرف مناسب توجہ دی ہو تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ 30برس میں 22لاکھ افراد پانی نہ ہونے پر ہجرت پر مجبور ہونگے دنیا میں اس وقت2ارب 20 کروڑ افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، ماضی میں حکمرانوں نے وقت پر ڈیمز نہ بنا کر اس قوم اور ملک کیساتھ واقعی بڑا ظلم کیا ہے، دوسری طرف ہم من حیث القوم پانی تیزی سے ضائع بھی کر رہے ہیں آج ملک میں جگہ جگہ اس سلسلے میں آگاہی سیشن منعقد کرنے کی ضرورت ہے، میڈیا پر ایک اشتہاری مہم چلانا ضروری ہے ہم سب کو پانی سے متعلق اپنی عادات بدلنا ہوں گی،پانی کے ذخائر محفوظ بنانا ہونگے،کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے بروقت ڈیمز نہ بنائے،گلیشرز کا پانی ضائع ہورہاہے یہ بڑی تشویش ناک بات ہے کہ 2050 تک پاکستان میں 22 لاکھ افراد پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے نقل مکانی اور ہجرت پر مجبور ہونگے، ہمیں بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے گھروں کی چھتوں پر بارانی پانی کیلئے ٹینک اور پہاڑی علاقوں میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کی طرف جانا ہوگا، صرف بارانی پانی کو گاڑیوں کو دھونے اور چھڑکاؤ کیلئے استعمال کرنا ہوگا، پانی کا اس طرح بے دریغ ضائع کرنے کی روش ترک کرنا ہوگی اورپانی کے ضیاع کو کنٹرول کرکے گراؤنڈ واٹر کا لیول بڑھانا ہوگا اور یہ جو جا بجا بغیر کسی قاعدے و قانون کے بور لگانے کا سلسلہ جاری ہے اس پر بھی پابندی لگانا ہوگی سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اس ضمن میں فوری طورپر قانون سازی کرکے پانی کا ضیاع کرنے والوں پر قانون کے رکھوالوں کو سختی سے ہاتھ بھی ڈالنا ہوگا۔
 سب سے بڑی دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ان امور کی طرف توجہ کبھی نہ دی کہ جن کی طرف توجہ دینے کی شدید ضرورت تھی اور فروعی معاملات میں آپس میں الجھ کروہ اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرتے رہے۔اب ذرا تذکرہ ہوجائے ملک کے سیاسی حالات کا۔ جہاں سیاسی درجہ حرارت مستقل بڑھ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی احتجاجی موسم بھی اپنی جوبن پر نظر آتا ہے۔بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی نے تاجروں، صنعتکاروں، دکانداروں اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ ایک طرف وزیراعظم کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک سے ایک دن پہلے وہ حزب اختلاف کو حیران کر دیں گے اور پی ٹی آئی اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لے کے جائے گی، یعنی جلسے جلوسوں کا سلسلہ جاری رہے گا تو دوسری طرف نون لیگ نے اپنے احتجاج کا شیڈول میڈیا کو جاری کردیا ہے ِ26 مارچ کو مہنگائی کے خلاف جلوس پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتا ہواراولپنڈی پہنچے گا۔ جے یو آئی کے ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کے اکابرین خیبر پختونخوا، چترال، گلگت بلتستان اور دوسرے علاقوں سے راولپنڈی کی طرف پیش قدمی کریں گے جبکہ پی پی پی اور دوسری حزب اختلاف کی جماعتیں کراچی سے اسلام آباد کیلئے رخت سفر باندھیں گی۔سیاسی کارکنان جلسے و جلوس کی جوش وخروش سے تیاریاں کر رہے ہیں۔ تاہم ان جلسے، جلوس اور احتجاجی پروگراموں سے متاثر ہونے والے تاجر، دکاندار، سرمایہ کار اور اجرت کام کرنے والے مزدور سمیت لاکھوں لوگ پریشان نظر آتے ہیں۔
راولپنڈی میں فیض آباد کا علاقہ کشمیر اور شمالی علاقوں کو ملک سے جوڑتا ہے جبکہ ترنول کا علاقہ خیبرپختونخوا سے ملک کے دیگر حصوں کو جوڑتا ہے، سیاسی احتجاج اور دھرنے کی وجہ سے گڈز سروس کی فراہمی ان تمام علاقوں میں متاثر ہو گی۔اس صورت حال سے پورا ملک متاثر ہوگا۔ چھوٹے تاجر، دکاندار اور اجرت پر کام کرنے والے مزدور یقینا اس صورت حال سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ا س کے ساتھ ساتھ اس صورت حال سے لاجسٹک کے مسائل بھی پیدا ہوں گے اس کے علاوہ خرید و فروخت بھی رک جائے گی یا بہت کم ہو جائے گی، جس سے معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔ یہ بھی امکان ہے کہ ملک میں مہنگائی مزید بڑھ جائے کیونکہ کچھ اشیا کی قلت ہو سکتی ہے، سیاسی بے یقینی کی وجہ سے لوگوں کا پہلے ہی اربوں روپے ڈوب گیا ہے اور اگر یہ صورت حال طول پکڑتی ہے تو لوگوں کا مزید سرمایہ ڈوبے گا۔ ایسے حالات میں عوام یہی درخواست کرسکتے ہیں کہ اگر سیاست دان عام آدمی کیلئے کچھ کر نہیں سکتے تو کم از کم وہ جلسے جلوس اور احتجاج کرکے سڑکوں کو بند نہ کریں، بازاروں کو تو ویران نہ کریں، مارکیٹوں کو تو برباد نہ کریں، اگر کاروباری زندگی چلتی رہے گی تو کم از کم غریب آدمی اپنی روزی کما کر اپنے بچوں کا پیٹ تو پال سکے گا۔کیونکہ ہنگامہ آرائی کا حاصل کچھ نہیں سوائے اس کے کہ معاشی سرگرمیاں مزید سست پڑ جائیں گی اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔