اسلامی تعاون تنظیم (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن‘ او آئی سی) کا 48واں وزرائے خارجہ اجلاس پاکستان کی داخلی سیاسی گرما گرمی کے باوجود انتہائی ’غیرمعمولی‘ رہا اور اگرچہ حزب اختلاف کی جماعت پیپلزپارٹی نے اِس اجلاس کے انعقاد پر شکوک کا اظہار کیا تھا لیکن پاکستان نے نہایت ہی کامیابی اور یک سوئی سے ’او آئی سی‘ اجلاس کی میزبانی کر کے ثابت کر دیا کہ مسلم اُمہ کے مفادات قومی مسائل سے زیادہ اہم ہیں۔ جس کے افتتاحی اجلاس سے وزیر اعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے مسلم اُمہ کو درپیش بہت سے اہم مسائل کا ذکر کیا اور ایک مرتبہ پھر اسلام کے حقیقی تشخص کو اُجاگر کیا۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں جس تشویش کو بالخصوص اجاگر کیا وہ فلسطینیوں اور کشمیریوں سے متعلق تھی کہ اِن اقوام کی نظر میں ’او آئی سی‘ کی ساکھ بہتر بنانے کیلئے بھی اقدامات ہونے چاہئیں۔ اُنہوں نے اِس نکتے کی جانب بھی اشارہ کیا کہ کس طرح ’مغربی ممالک او آئی سی کے اعلامیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔‘ وزیر اعظم عمران خان جب اشارتاً کہتے ہیں کہ ’او آئی سی‘ سے مسلمان ممالک کے عوام مطمئن ہیں تو درحقیقت وہ صرف چند متاثرہ ممالک نہیں بلکہ ہر ملک کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔جب تک مسلم ممالک کی قیادت ایک نہیں ہوگی اور معمولی و فروعی اِختلافات ختم نہیں کئے جائیں گے اُس وقت تک دنیا مسلم ممالک کے مؤقف کو بھی سنجیدگی سے نہیں لے گی۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کیلئے خود مسلمان حکمران ہی ذمہ دار ہیں کیونکہ آج تک ایک تنظیم (او آئی سی) کے پلیٹ فارم پر متحد ہونے کے باوجود بھی مسلم ممالک ایک دوسرے کے مفادات کو اپنا مفاد اور ایک دوسرے کو نقصانات کو اپنا نقصان نہیں سمجھتے۔ اِس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب سے زیادہ ہے جن میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہونے کے باوجود اِنہیں عالمی فیصلہ سازی میں خاطرخواہ اہمیت حاصل نہیں جس کا ایک عکس اقوام متحدہ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاں پانچ ممالک کو ’ویٹو پاور‘ حاصل ہے یعنی اُن کی مرضی و رضامندی کے بغیر کوئی بھی فیصلہ عالمی لائحہ عمل نہیں بن سکتا لیکن ’ویٹو پاور‘ رکھنے والوں میں ایک بھی مسلمان ملک شامل نہیں۔ اِسی طرح مسلمان ممالک کو ’جوہری صلاحیت‘ حاصل کرنے سے روکنے کیلئے غیرمسلم ممالک وقت پڑنے پر متحد ہو جاتے ہیں جو سراسر غیرمنصفانہ ہے۔ ”عالمی برادری“ کہلانے والا طبقہ جو زیادہ تر مغربی طاقتوں پر مشتمل ہے بین الاقوامی قوانین کو سنجیدگی سے نہیں لیتا‘ جو ایک الگ المیہ اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کا باعث ہے۔
کشمیر و فلسطین کے معاملے میں بین الاقوامی قانون واضح ہے لیکن اس کا نفاذ نہ تو ’عالمی برادری‘ کی طرف سے دیکھنے میں آتا ہے اور نہ عالمی قوانین لاگو کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرتی ہیں‘ تب بھی بڑی بین الاقوامی طاقتیں ان قراردادوں کو نافذ کرنے سے گریزاں رہی ہیں۔ دنیا بھارت کے ساتھ اقتصادی اور تزویراتی تعلقات کو مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے عوام پر ہونے والے مظالم سے الگ رکھے ہوئے ہے! آخر ایسا کیوں ہے؟ ’او آئی سی‘ اپنے گزشتہ چند اجلاسوں سے ’اسلامو فوبیا‘ کے معاملے پر بات کر رہی ہے جس کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے حال ہی میں ایک قرارداد بھی منظور کی ہے اور ہر سال پندرہ مارچ کا دن اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے طور پر منایا جائے گااسے بلا شبہ ایک اہم کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے تاہم حقیقی معنوں میں اخلاقی اقدار اقوام کے مؤقف کو توانا بنانے کا باعث بنتی ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی جانب وزیراعظم پاکستان نے توجہ دلائی ہے اور ’او آئی سی‘ کے کئی رکن ممالک کی جانب سے اِس سلسلے میں مثبت اشارے سامنے آئے ہیں۔