یہ کیا کم ہے کہ سامنے سب کچھ پڑا ہو اور آدمی نہ کھا سکے۔یہ امتحاں نہیں تو اور کیا ہے۔آرڈر ہو کہ کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا۔ ڈاکٹر کے احکامات کب تک مانیں گے۔کھانے کی میز پر ساتھ والے صاحب کے دانتوں کے آپس میں ٹکرانے کی آوازیں کانوں میں رخنہ اندازی کر رہی ہو۔ دوسری طرف جبڑے کھڑکھڑانے کی پُر لطف آوازیں سماعت کو پُر خراش کر رہی ہوں۔ پھر یہاں ہماری بھوک چمک رہی ہو۔پیٹ اندر چوہے دوڑتے ہوں۔ پھر اس تقریب میں جانا بھی ضروری ہو۔کیونکہ نہ جانے پر برادری سے نکال دیئے جانے کااندیشہ ہو۔سو ایسے خوشی کے مواقع پرجانا ٹھہر جاتا ہے۔پھر وہاں صرف حاضری دینا مقصودہو۔سوچ لیا ہو کہ کھانانہیں کھائیں گے۔بس چاولوں کی اگر خوشبو دماغ کو معطر کر گئی تو یہ وار دل پر سہہ لیں گے بنا کھائے گھر آجائیں گے۔ایسے میں بڑے بڑوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ صبر کر لیں گے۔چاول اگر منع ہیں تو اچھا ہے۔یہ معالج ہمارے بھلے ہی کیلئے تو کہتے ہیں۔اگر ان کی دی ہوئی ہدایات پر عمل نہیں کریں گے تو فائدہ کیا۔۔مگرصاحبان گھر کے چاولوں اور دیگ کے چاولوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتاہے۔
گھر میں چاول تیار کئے گئے ہوں اور اس سے بہ سبب بیماری اگر پرہیز کیا جائے تو روا ہے۔چلو برداشت کر لیں گے۔صبر تو کہیں گیا نہیں۔صبر بھی آخر ایک مقام ہے۔ وہ اسی موقع کے لئے تو بنا ہے۔جب سب کچھ ہاتھ میں ہو بلکہ دو ہاتھ پرہو اور بھلائی کے پیشِ نظر اگر صبر کر لیا جائے تو کیا حرج ہے۔مگر انسان ہو اور اس میں صبر ہومشکل ہے۔مگر ہم توساری نصیحتوں کو ایک طرف کر کے دوسروں کی خوشیوں کا انتظار کرتے ہیں۔جب کسی کے ہاں خوشی کی تقریب ہو وہاں حاضری دے کر واپس آنے کا ارادہ ہو۔مگر چاولوں کی خوشبو نے مجبور کردیاہو۔ دل میں ارادے باندھنے کا ہنگام ہو۔اس ل ئے کہ چلو تھوڑی دیر اور بیٹھ جاتے ہیں۔اتنا جلدی غائب ہو جانا از روئے اخلاق درست نہیں۔پھر اندر اندر احساس کہ انتظام کرنے والوں میں سے کوئی ذمہ دار آدمی آئے اور کہے آئیے کھانا تیار ہے۔کیا کریں جب کوئی دعوت دے تو اس کی دعوت قبول نہ کرنازیادتی ہے۔ یہ زیادتی کسی اور پر نہیں اپنے اوپر مراد ہے۔
کیا ارمانوں کے خون کرنے کایہی موقع ہے۔پھر کبھی کس اور موقع پر خواہشوں کو دبا لیں گے۔یہ سنہری موقع ضائع چلا جاتا ہے۔وہ آواز دیں کہ آئیے کھانے کے لئے آئیے۔اس وقت کسی کا دل توڑنا کتنا برا ہوگا۔چپکے سے رش میں جب غول کے غول آدمیوں کے اٹھ کھڑے ہوں تو ہم بھی اس ہجوم کو اپنے اوپر اوڑھ کرپردہ سا بنا کر اس میں گم ہو کر بظاہر تحمل سے مگر اندر اندر جلدی میں کسی میز کے کنارے بیٹھ جائیں۔مگر میز وہ ہوگی جو جاننے والوں سے دور ہو۔ جہاں ہمارے مہربانوں کی نظرِ کرم کا پہنچنا دشوار ہو۔کیونکہ اگر ان کے ساتھ بیٹھ گئے تو بیماریوں میں بدپرہیزی کی ہماری داستانیں پورے خاندان میں گردش کرنے لگیں گی۔
پھر خدا لگتی بات ہے اس موقع پر کھانا کھانے پربھر پور توجہ ہونی چاہئے۔مگر بعض عزیز دوست رشتہ دار عین کھانے کے دوران میں خاندانی مسائل لے کر بیٹھ جائیں گے۔ سوال پہ سوال پھینکیں گے۔ اب ہم جوابات کا سلسلہ دراز کریں تو کھانا ہاتھوں کے نیچے سے جلدی غائب ہونا شروع ہو جائے گا۔جب بھوک نے آن گھیرا ہو اورسامنے خوانچے میں جیسے دنیا کی تمام نعمتیں چن دی گئی ہوں۔پھر اس وقت بولا کہاں جاتا ہے۔ کیونکہ اس تقریب کے کھانے کے لئے دوپہر کو بھی گھر میں ہاتھ کھینچ کرکھایا کہ رات کو بسیار خوری کے مرتکب نہ ہو ں۔سو بھوک کے اس عالم میں آنتوں میں کڑول پڑنا تو عام سی بات ہوگی۔شوگر کو روئیں کہ بلڈ پریشر کا ماتم کریں یا معدہ کے ضعیف ہوجانے کا ستم بیان کریں۔ ان میں سے اگر ایک بیماری نے بھی آن گھیرا ہو تو خوانچہ کا سارا مزا غارت ہو جاتا ہے۔پھر ایسے میں ایک چھوڑ تین تین بیماریاں ساتھ چپکی ہوں توآدمی گیا۔
اس وقت کس ڈش پر ہاتھ ڈالیں اور کس پر ہاتھ صاف کریں۔اسی سوچ میں رہ گئے تو خوانچہ خالی ہو جائے گا۔ لہٰذا اس بیکار کی سوچ میں پڑنے سے کہیں اچھا ہے کہ خوانچہ پر حملہ آور ہو جانا چاہئے۔اس وقت سوائے بد پرہیزی کے اور کچھ بھی ذہن میں نہیں آئے گا۔ کیونکہ پلاننگ منصوبہ بندی او راحتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ چکا ہوگا۔بہتری اسی میں نظر آئے گی کہ خوراک کی نا شکری نہیں کرنا چاہئے۔اب جو سامنے آ گیا اس کاہم نے آرڈر تو بک نہیں کروایا تھا۔ اب اگلا مہربان ہوگیا اور کھلانے پر اصرار کر رہا ہے تو بس زیادہ سوچنے سمجھنے کی ضرورت نہیں۔پھر اس موقع پرآپ کا دل اور دماغ بھی توآپ کے تابعدار نہیں رہتے۔وہ تو اس وقت آپ کے خلاف ہوں گے موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔پھر ڈاکٹر صاحبان کاکیا ہے ہم کو تو منع کرتے ہیں اور خود ان گنہ گار آنکھوں نے انہی کو یہی بدپرہیزی دہراتے ہوئے دیکھا ہے۔یا شاید وہ ہماری طرح بیمار نہ ہوں یا ہو بھی سکتے ہیں۔ خیر اس سوچ میں پڑ کر اس نیک کام کے وقت کہ پیٹ کا بھی آپ پر حق بنتاہے اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔