صدارتی ریفرنس 

حکومت کو عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) سے رجوع کرنا پڑا ہے تاکہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح معلوم ہو سکے اور یوں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ صدارتی ریفرنس کی باضابطہ سماعت کر رہا ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدارتی ریفرنس پر معانت کیلئے تمام صوبوں کو نوٹس جاری کر دیئے جبکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ رکن کے ڈالے گئے ووٹ پر یہ کہنا کہ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کی توہین ہے، آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے،آرٹیکل 63 اے کی روح کو نظر انداز نہیں کرسکتے، عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں، ایسے معاملات ریفرنس کی بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں، عدالت نے ارٹیکل کو 55 کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔جس آئینی شق کی تشریح مانگی گئی ہے وہ شق بھی بہت حد تک واضح ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ ”اگر ایوان میں کسی تنہا سیاسی جماعت پر مشتمل پارلیمانی پارٹی کا کوئی رکن اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہوجائے‘ کسی دوسری جماعت میں شامل ہوجائے یا ایوان میں وزیرِاعظم اور وزیرِاعلیٰ کے انتخاب”اعتماد یا عدم اعتماد‘‘آئینی یا مالی بل پر پارٹی کے فیصلے کے برعکس ووٹ کرے یا ووٹ کرنے سے اجتناب برتے (شرط ووٹ کاسٹ کرنے یا نہ کرنے کی ہے) تو ایسی صورت میں پارٹی کا سربراہ تحریری طور اعلان کرسکے گا کہ وہ رکن یا ارکان سیاسی جماعت سے انحراف ہوچکے ہیں۔ پارٹی سربراہ اس اعلان کی ایک نقل پارلیمنٹ کے پریذائیڈنگ افسر اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج سکے گا۔ ایک کاپی ممبر کو بھیجے گا لیکن شرط یہ ہے کہ پارٹی سربراہ اس ممبر کو اس بارے میں اظہار وجوہ کا موقع فراہم کرے گا تاکہ اس کے خلاف مذکورہ اعلان کیا جائے۔“

آئین میں اس کے بعد کی کاروائی کا ذکر بھی ملتا ہے لیکن یہاں اس سے سروکار نہیں۔ اس ریفرنس میں چار مختلف سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ 1: آئین کی شق تریسٹھ اے کی تشریح کیا ہوگی؟ 2: کیا سیاسی جماعت سے منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار کیا جاسکتا ہے؟3: منحرف ہونے والے ممبر کی نااہلی کی مدت کیا ہوگی؟ اور 4: ووٹ خریداری روکنے کے لئے تریسٹھ اے اور باسٹھ اے کی تشریح کرکے ان ارکان کے انتخابات پر تاحیات پابندی لگائی جاسکتی ہے؟ قانونی امور کے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ”جہاں تک نااہلی کی مدت کا سوال ہے تو اس پر آئین خاموش ہے البتہ عمل یہ رہا ہے کہ ’فلور کراس (منتخب ہونے کے بعد سیاسی وابستگی تبدیل)‘ کرنے والا رکن اسمبلی ”ڈی سیٹ (نااہل)“ ہوجائے گا۔ وہ نشست پارلیمنٹ کی مدت تک خالی سمجھی جائے گی اور دوبارہ وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اہل ہوسکتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان اپنے تصور سے تکمیل کے سفر میں پرپیچ راستوں سے گزر رہا ہے اور یہ پُرپیچ راستے بھی ہموار نہیں تو سفر کے پہلے حصے کا موازنہ دوسرے حصے سے کرتے ہوئے مستقبل کا تصور کیا جا سکتا ہے اور اِس کے لئے حال سے ماضی کی طرف نہیں بلکہ ماضی سے حال کی طرف دیکھنا ہوگا۔قرارداد پاکستان پیش کئے جانے کے بیاسی سال پورے ہونے پر ملک بھر میں ترقی‘ خوشحالی اور قومی دفاع کو مضبوط بنانے کے عزم کے ساتھ ”یومِ پاکستان“ عہد کی تجدید اور اِس پیغام کے ساتھ منایا گیا کہ ”شاد رہے پاکستان۔“ بقول صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ”ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حصول پاکستان کا مقصد ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام تھا جو اسلامی اصولوں‘ اعتدال پسند اور روادار معاشرے کا عملی نمونہ پیش کرے۔ جہاں مسلمانوں کے ساتھ اقلیتوں کی جان و مال کا تحفظ اور انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو۔“برسراقتدار اور حزب اختلاف سیاست دانوں کے بیانات سے عیاں ہیں کہ ملک میں جمہوری روایات استوار ہوں۔ اِس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ جمہوریت کی بالادستی ہی پاکستان کی بقا ء کی بھی ضامن ہے اس لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ بانیئ پاکستانؒ کے ارشادات کی روشنی میں اسلامی‘ فلاحی اور جمہوری ریاست بنانے کے لئے عملاً ہر ممکن کوشش کی جائے۔