میرا پیغام محبت ہیی

کسی تعلیمی ادارے میں ہمیں سال کا ایک کورس ورک دیا جاتا ہے جس کو ہم نے پڑھانا ہوتا ہے اگر ادب ہے یا معاشیات ہے یا کوئی اور مضمون ہے۔اس میں سیاسیات بھی ہو تو ہمیں اپنے روڈ میپ کو نہیں چھوڑنا ہوتا۔سکول کالج یا کوئی تعلیمی ادارہ ہو مقدس جگہ ہوتی ہے۔ کلاس روم کے اندر کے ماحول کو لازمی صاف رکھنا چاہئے۔ بعض کلاس ٹیچر علم کے دریا تو بہا دیتے ہیں مگر ساتھ اپنی توقیر کو بھی اس سیلاب کی نذر کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر استاد کی کسی سیاسی پارٹی سے ہمدریاں ہیں تو ان کے سٹوڈنٹس کی بھی کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ جذباتی سہی مگر لگاؤ توہوگا۔اس لئے طالب علموں کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔کلاس کے طالب علم اپنے پسندیدہ استاد کی اس حد تک عزت کر تے ہیں کہ اس جیسا لباس پہنتے ہیں۔استاد کی وضع قطع کو کاپی کرتے ہیں۔اس کے ہیئر سٹائل تک کو اپنا لیتے ہیں لیکن ان کادل ٹوٹ جاتا ہے جب استاد اپنی سیاسی وابستگی کااظہار کر دے۔ اگر کوئی طالب علم پوچھ بھی لے کہ سر آپ کا تعلق کس پارٹی سے ہے۔اس کے جواب میں استاد کو چاہئے کہ اپنی پارٹی وابستگی کے بارے میں کچھ نہ کہے۔بلکہ سیاست ہی کو کلاس روم میں زیرِ بحث نہ لائے۔ وہ جواب میں کہہ سکتا ہے کہ ہم یہاں پارٹیوں وغیرہ کی بحث کے لئے نہیں بیٹھے۔جو کتاب اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے ہم نے وہ پڑھنا ہے۔ ”میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے“۔ ہم نے محبت کو فروغ دیناہے۔کلاس روم کو ہر قسم کی آلائش سے پاک ہونا چاہئے کیونکہ کلاس روم کا اپنا ایک ضابطہئ اخلاق ہوتاہے۔جس کی پابندی کرنا چاہئے۔ کیونکہ طلباء بہت معصوم ہوتے ہیں۔ اپنے استاد کی عزت و توقیر کرتے ہیں۔بعض سٹوڈنٹس سیاسی طور پر جذباتی ہوتے ہیں۔وہ جھٹ سے استاد کی مخالفت وہیں کر دیں گے۔کورس سے ہٹنا درست نہیں۔ کورس سے ہٹ کرسیاست پر گفت شنید کر نا اور بات چیت کا ڈول ڈالنا درست سمت کی طرف اٹھایا گیا قدم نہیں۔ہر چند کہ سیاسی حوالے اپنی جگہ معتبر ہیں۔مگر اس سے تعلیم کے انتظام میں بہت زیادہ خلل ہوتا ہے۔اس لئے اگر آپ سیاست کو موضوع ِ بحث بنائیں گے تو وہی طالب علم گھر جا کر یا اپنے سیاسی قائدین کو رپورٹ کرتے ہیں۔یہ کہ آج تو سر نے آپ کی پارٹی کے خلاف خوب کھل کر بات کی ہے۔اس پروہی شخصیات اس طالب علم کو سیاسی بے چینی پھیلانے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ اب تو تعلیمی اداروں کا ماحول سیاست سے پاک ہو چکا ہے۔ اب تک جو بہتری سامنے آئی ہے اس کو تاخت و تاراج کرنا درست نہیں۔جب طلباء تعلیم مکمل کرلیں تو ان کی مرضی ہے کہ وہ جس سمت کو قدم اٹھاتے ہیں۔اگر سیاست کی طرف جاتے ہیں تو وہ اپنے برے بھلے کے خودذمہ دار ہوتے ہیں۔