روایت رہی ہے کہ جب بھی کسی فاضل رکن اسمبلی کی وفات پر فاتحہ خوانی کی جاتی ہے تو اُس کے بعد اسمبلی اجلاس بغیر کاروائی ملتوی کر دیا جاتا رہا ہے لیکن پچیس مارچ کو قومی اسمبلی اجلاس کی صورتحال اِس لحاظ سے دلچسپ تھی کہ حزب اختلاف کے بنچوں پر موجود 159 ارکان بیٹھے رہے اور ابھی اگلے لائحہ عمل کیلئے مشاورت ہو رہی تھی کہ ”خلاف توقع“ اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان سنائی دیا تو اپوزیشن ہکا بکا ہو گئی یقینا تحریک انصاف نے پارلیمانی سیاست سیکھ لی ہے اور اِس پر کسی کو حیران (ششدر) نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین کی ”دفعہ 54 شق 3“ کے تحت اپوزیشن کی ریکوزیشن موصول ہونے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کو چودہ دن کے اندر اسمبلی اجلاس طلب کرنا ہوتا ہے۔ اپوزیشن بنچوں کی جانب سے رواں ماہ آٹھ مارچ کو وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور اس پر کاروائی کیلئے اسمبلی اجلاس بلانے کی ریکوزیشن اسمبلی سیکرٹیریٹ میں جمع کرائی گئی جس کی رو سے سپیکر کو اکیس مارچ تک اجلاس بلانا تھا تاہم انہوں نے اسمبلی بلڈنگ میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے بائیس مارچ سے شروع ہونے والے اجلاس کی بنیاد پر اکیس مارچ تک اسمبلی کا اجلاس بلانے کے آئینی تقاضا پورا کرنے سے گریز کیا اور اس کے بجائے پچیس مارچ کو اسمبلی اجلاس طلب کیا۔
اجلاس کے حوالے سے بھی سپیکر کی جانب سے عندیہ دیا جاتا رہا کہ وہ پچیس مارچ کا اجلاس مرحومین کیلئے فاتحہ خوانی کے ساتھ ہی غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کردیں گے جس کا انہیں اختیار حاصل ہے اور ان کے اس اختیار کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کی قیادتیں دونوں ہی ایوان سے باہر اپنی اپنی طاقت (حاصل عوامی حمایت) کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اسی دوران حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے خلاف آئین کی دفعہ تریسٹھ اے کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھی دائر کردیا گیا جس میں منحرف ارکان کی نااہلیت کی میعاد کی وضاحت کرنے کی استدعا کی گئی۔ اس حوالے سے حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ عندیہ بھی سامنے آیا کہ منحرف ارکان کو ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی نااہل قرار دیکر انہیں ووٹ ڈالنے سے روک دیا جائے گا۔
صدر مملکت کے دستخطوں کے ساتھ دائر کردہ یہ ریفرنس بھی سپریم کورٹ کے وسیع تر بنچ کے روبرو زیرسماعت ہے اور عدالت عظمیٰ کے یہ ریمارکس بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بن چکے ہیں کہ منحرف ارکان کو آئین کے تقاضے کے تحت ووٹ کا حق استعمال کرنے سے نہیں روکا جا سکتا جبکہ ان کا ووٹ شمار بھی کیا جائے گا۔ اس ریفرنس کی سماعت کے دوران فاضل عدالت عظمیٰ یہ بھی باور کراچکی ہے کہ ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں۔ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں اور جمہوریت کی پاسداری کریں عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کا عزم ہے کہ یہ مرحلہ آئین کے مطابق طے ہوگا۔ موجودہ درپیش چیلنجوں میں ملک کسی دوسرے آپشن کاکسی صورت متحمل نہیں ہو سکتا جبکہ اس سے جمہوریت اور آئین کی عملداری بھی خطرات میں پڑ سکتی ہے۔ اگر جمہوریت کا تسلسل اور استحکام عزیز ہے تو تصادم سے گریز اختیار کرنا ہوگا۔