لگ یہ رہا ہے کہ روس نے یوکرین کی جنگ اس حد تک ضرور جیت لی ہے کہ اس نے یوکرین کی فضائیہ اور بری افواج کو بری طرح پامال کردیا ہے نہ نیٹو کی افواج یوکرین کی مدد کو دوڑیں اور نہ امریکہ نے کھل کر اس کی حمایت کی ماسوائے زبانی جمع خرچی کے کہ جس پر یوکرین کے جوانسال صدر نے کئی بار خفگی کا کھلے عام اظہار بھی کیا ہے یوکرین کو دوبارہ اپنے زیر اثر لانے کے بعد روس کے صدر پیوٹن اب ان باقی ماندہ وسطی ایشیائی ممالک کی ایک ایک کرکے خبر لیں گے کہ جن کوامریکہ نے ماضی قریب میں سازشوں کے ذریعے سویت یونین کو توڑ کر ماسکو کی سیاسی دسترس سے نکالا تھا۔ پیوٹن کی اپنے اس مشن میں کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ چین آج اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے آج دنیا میں چین اور روس کی مشترکہ کمان کے نیچے کمیونسٹ بلاک ایک مضبوط سیاسی قوت بن کر ابھرا ہے امریکہ تو یہ سمجھا تھا کہ سویت یونین کو ٹکڑے کرکے وہ یونی پولر ورلڈ کا بے تاج بادشاہ بن چکا ہے پر چین کا دنیا میں ایک مضبوط معاشی قوت کے طورپر ابھرنا اور پھر چین اور روس کا آپس میں یک جان دو قالب ہو جانا دو ایسے حقائق ہیں کہ جن کی وجہ سے امریکہ کے تمام سیاسی خواب چکنا چور ہوگئے ہیں جس طرح یوکرائن کے خلاف روس کی مہم جوئی کو چین کی بھرپور حمایت حاصل ہوئی ہے لگ یہ رہا ہے کہ کل کلاں جب چین تائیواں پر دوبارہ اپنی دسترس قائم کرنے کیلئے کوئی بھی عسکری قدم اٹھائے گا تو روس بھی اس کی مدد کو آئے گا یاد رہے کہ تائیوان کو چین اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے جبکہ امریکہ تائیوان کے معاملے میں ہمیشہ چین کے ساتھ الجھتا رہاہے۔
افغانستان کا حال ہی میں چینی وزیر خارجہ نے جو اچانک دورہ کیا ہے وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ چین سی پیک کا دائرہ اختیار افغانستان تک بڑھانا چاہتا ہے۔وہ اپنی عسکری اور معاشی قوت کو مضبوط کرنے کیلئے اپنی کاوش میں توازن رکھنے کی پالیسی پرگامزن ہے چین کو اپنی مارکیٹ اکانومی بڑھانے کیلئے بڑی منڈیاں درکار ہیں جتنی دوراندیشی کا مظاہرہ چین کے حکمران کر رہے ہیں وہ شاذ ہی دنیا کے کسی اور ملک کے حکمرانوں نے دکھائی ہو۔ اب تذکرہ کرتے ہیں ایک کھیل کا جس میں پاکستان کا کسی وقت طوطی بولتا تھا تاہم اب اس کھیل میں پاکستان کی پوزیشن کافی حد تک کمزور ہے، جی ہاں سکواش پر کسی وقت پاکستانیوں کاراج تھا، ان میں سے ایک نام روشن خان کا تھا۔روشن خان نے برٹش اوپن کے علاوہ امریکہ میں ہونے والی یو ایس اوپن سکواش چیمپئن شپ بھی تین مرتبہ جیتی۔1960 میں روشن خان اور محب اللہ خان سینئر واشنگٹن میں کھیل رہے تھے۔ اس موقع پر صدر جان ایف کینیڈی نے دونوں کو امریکہ مستقل سکونت اختیار کرنے کی پیشکش کی۔ محب اللہ خان سینئر نے یہ پیشکش قبول کر لی لیکن روشن خان اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔
روشن خان نے جس دور میں سکواش کھیلی اس وقت ان کا مقابلہ ہاشم خان، اعظم خان اور محب اللہ خان سینئر سے ہوا کرتا تھا۔ وہ ازراہ تفنن کہا کرتے تھے میرے سامنے تین جیف ہنٹ ہوا کرتے تھے۔روشن خان ایک سٹائلش کھلاڑی تھے جن کے ڈراپ شاٹس حریف کھلاڑیوں کو حیران کر دیتے تھے۔پاکستان کی سکواش کی تاریخ پر لکھی گئی کتاب خانز ان لمیٹڈ کے مصنف ڈکی رتناگر لکھتے ہیں کہ 1995 میں مصر میں منعقدہ ورلڈ چیمپئن شپ کے دوران سابق برٹش اوپن چیمپئن محمود الکریم سے گفتگو ہوئی تو میں نے محمود الکریم سے روشن خان کے کھیل کے بارے میں پوچھا۔ محمودا لکریم کا جواب تھا جہانگیر خان بھی ہوتے تو وہ بھی روشن خان سے دو پوائنٹس نہیں جیت سکتے تھے۔روشن خان ایک ایسے کھلاڑی تھے جنھوں نے صحیح معنوں میں اپنے دور کے دو عظیم کھلاڑیوں ہاشم خان اور اعظم خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا۔