ایسا تو ہونا تھا۔بہار نے آخرِ کار خزاں کو بچھاڑ کر رکھ دیا۔وہ پیڑ گھنیرے جن کے ڈالے پات سے عاری تھے۔ وہ درخت جو ٹانٹا بن کر ہوا کے سنگ جھول جھول جاتے اب ایک ذراٹہلائی کرو تو چاروں اور سبز لباس میں ملبوس یہ سنتری ماحول کی حفاظت اور آب وہوا کی سیریابی کے لئے دوبارہ سے مستعد اور چاک و چوبند دستوں کی طرح کبھی تو سرِ راہ کھڑے ہیں اور گاہے لہلہاتے کھیتوں کے پار اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔گرد وپیش کے مناظر جو دھندلا چکے تھے اب شفاف ہو چکے ہیں۔نہر کنارے کے یہ بانکے پہرے دار کبھی تو چوبدار کی مانند سیدھے کھڑے ہوئے آنے جانے والوں کو سلامی دیتے ہیں۔ پھر یہی بور لدے چھتنار نہر کے اوپر جھکے ہوئے دلکش مناظر تخلیق کر رہے ہیں۔بہار کے مناظر دیدنی ہوتے ہیں۔ جن دلوں کو فطرت سے اُنس ہے ان کو یہ دیدہ زیبی بہت بھلی لگتی ہے۔کیونکہ خزاں کا موسم کچھ طویل ساتھا۔جب انتظار کی آنکھیں دروازے پر لگی ہوں۔
جب کسی کی راہ دیکھ رہی ہوں تو پل پل گزارنا چندے دشوار ہوجاتا ہے۔ایسے میں موسمِ گل کا آنا خوشیوں کی نوید ہوتا ہے۔”رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام۔ موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کانام“فیض احمد فیض نے یونہی تو نہیں کہہ دیا ہوگا۔کبھی تو بہار نگاہوں کے باہر موجود ہوتی ہے۔پھر کبھی یہی فصلِ گل آنکھوں کے اندر سما جاتی ہے۔آنکھوں میں سرمستی اور شادابی ہو تو کبھی موسم گل کے نہ ہوتے بھی فصلِ گل کی سی کیفیت ہوتی ہے۔کیونکہ خزاں کے اپنے پھول ہوتے ہیں۔پھر خزاں میں بھی ہرے بھرے رہنے والے کچھ الگ درخت ہوتے ہیں۔صبح دم ان مناظرِ فطرت کی سیر میں کتنالطف ہو تا ہے۔سرور سے چھلکتے ہوئے یہ پیمانے یہ لڑی میں پروئے گئے منظر کتنے دیدہ زیب ہیں۔فجری سویر کے بعد دن ڈھلے بھی جب پرندے اپنے اپنے آشیانوں کو لوٹ جاتے ہیں۔”تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد۔کتنے چُپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد“۔بہار کی گھڑیاں ایسے بے بہاہیں کہ بیمارو ں کو شفایابی کا سندیسہ مل جاتا ہے۔”رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی۔ جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے۔جیسے ویرانے میں ہولے سے چلے بادِ نسیم۔جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے ( فیض)۔اب ان کی بھی سنی جائے گی جن کی کوئی سنتا نہ تھا۔کیونکہ سرِ شاخسار پھولوں کی بُو باس گرد وپیش کو معطر کئے دیتی ہے۔مصور کے کینوس پر جہاں منظر کے پس منظر میں زردی نے زیادہ حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔اب اس سینری میں زردی نے شکست تسلیم کر کے خود علیحدگی اختیار کر لی ہے۔
اب تو صبح بھیگی ہریالی آنکھوں کو بھی تراوت دے جاتی ہے۔پھر ایسے میں دو ایک چھینٹے برس جائیں تو آب ہوا یخ بستہ ہو جاتی ہے۔سردی کے تاحال موجودہونے کاگمان ہو نے لگتا ہے۔ شام گئے اور صبح تڑکے ہی آج اس شہرِ گل عذاراں میں موسم کی ٹھنڈک نے خوب لطف دوبالا کر رکھا ہے۔گاہے سردی کا احساس اور کبھی گرما کے محسوسات کے گنگا جمنی رنگ دل کو چار چراغ کرتے ہیں۔معتدل موسم کے مزے چند دنوں کے مہمان ہیں۔پھر جوں ہی کلینڈر پر سے مارچ کا صفحہ الٹ جائے گا تو موسم دوبارہ سے گرم رُتوں کی جانب پلٹ جائے گی۔اب تو چھت کے پنکھے ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ موسم کے بدلنے کا شگون دے چکے ہیں۔کبھی تو پنکھوں کے پروں سے آتی ہوئی خنکی زیادہ ہونے لگتی ہے اورکبھی پنکھا دوبارہ سے آن کرنا پڑتا ہے۔یہ شہرِ سبزہ و گل اسی ڈگر پر استوار ہے۔یاران عطر بیز اپنے وجود کی خوشبو لئے اپنے وطن کی سرزمین پر اُتر آئے ہیں۔جیسے پرندے کبھی ایک جا او رکبھی دوسری جااپنے پروں کو پھیلائے اور سمیٹے کبھی ایک جگہ ہجرت تو کبھی ضرورت کے تحت دوسری جگہ نقل مکانی کر جاتے ہیں۔شہرِنگاراں کے پرانے شہری اپنے آبائی شہر کا رخ کئے ہوئے ہیں۔کوئی کہاں اُترا ہے اور کوئی کہاں آن کر رک گیا ہے۔
جرمنی سے جرمن اور انگلینڈ سے لندن والے اپنی اس جنم بھومی اس جنم استھان میں آکر اسی موسم کی رعنائیاں لوٹ رہے ہیں۔مگر کون کب تک یہ مزے دوبالا کر ے گا۔پھر ایک آدھ ماہ اور انھی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوں گے۔کیونکہ موسمِ بہاراں تو رہے گا۔ مگر اس میں تپش کی آمیزش میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔گھروں کے آنگن خوشبو سے مہکنے لگے ہیں۔سبزہ اور پانی اکٹھے ہوکر ایک نایاب سی خوشبو دینے لگے ہیں۔صحن کے گملوں میں کہیں کوئی تتلی نظر آجاتی ہے تو خزاں کو شکست ہوتی ہوئی صاف دکھائی دے جاتی ہے۔آنگن میں جھکے ہوئے درخت اس گھر کی دیواروں کی رکھوالی کو جیسے اوپر اٹھے ہوں۔مگر شہر میں تو کم کم مگر بیرون از شہر سبزہ و گل کے نظارے عجیب سرمستی میں مبتلاکئے دیتے ہیں۔