او آئی سی یعنی اسلامی کانفرنس تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کا اڑتالیس واں اجلاس ایک ستر نکاتی اسلام آباد اعلامیہ کی منظوری اور درجنوں قراردادوں کی منظوری کے بعد جمعرات کو ختم ہوگیا۔ سوال یہ ہے کیا اس اعلامیہ سے مسلم ممالک کے مسائل حل ہو سکیں گے اور کیا او آئی سی اب کوئی قابل لحاظ قوت ہے یا بس بحث و مباحثہ کی ایک جگہ؟ اسلام آباد اعلامیہ میں فلسطین، کشمیر، مالی، افغانستان، صومالیہ اور بوسنیا ہرزیگووینا وغیرہ کے عوام اور ترک قبرص کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کیا گیا۔ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے اور کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی حمایت کا اظہار کیا گیا۔ دہشت گردی کی تمام جہتوں کو مسترد کیا گیا اور اسے کسی بھی ملک، مذہب، قومیت، نسل یا تہذیب سے نتھی کرنے کی مذمت کی گئی۔ اس میں جاری عالمی مسلح تنازعات پر تشویش ظاہر کی گئی اور جانوں کا ضیاع روکنے، انسانی امداد بڑھانے اور سفارت کاری میں اضافے پر زور دیا گیا۔
اجلاس کا باقاعدہ موضوع اتحاد، انصاف اور ترقی کیلئے باہمی شراکت داری تھا۔ اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ چین بھی پہلی بار اس میں شریک ہوا اور کشمیر پر او آئی سی کی قرارداد اور چینی وزیر خارجہ کی تقریر پر بھارت تلملا اٹھا۔او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی تنظیم ہے۔ اس میں تقریبا ڈیڑھ ارب مسلم آبادی اور ستاون رکن ممالک، جن میں معدنی و افرادی وسائل سے مالامال اور تزویراتی اہمیت رکھنے والے ممالک شامل ہیں جو دنیا کے ستر فیصد توانائی کے ذرائع اور چالیس فیصد خام مال کے مالک ہیں مگر ان کی خام قومی پیداوار دنیا کی صرف پانچ فیصد ہے۔ اسے عالمی سطح پر ایک توانا آواز ہونا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا ہے۔ کیونکہ ان کی باہمی تجارت انتہائی کم ہے اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات بڑھانے پر توجہ نہیں دی۔او آئی سی کیسے مضبوط ہوسکتی ہے۔ دنیا علاقائی اتحادوں کی طرف چلی گئی ہے۔
یورپی یونین، نیٹو، آسیان، شنگھائی تعاون تنظیم، برکس جیسی تنظیمیں عالمی سطح پر پنپ رہی ہیں اور اقوام متحدہ کمزور۔ ایسے میں او آئی سی بھی اپنی اہمیت منوا سکتی ہے۔او آئی سی کو اپنے چارٹر کی روشنی میں اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا وہ اس سلسلے میں قائدانہ اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرچکا ہے؟۔مسلم ممالک کو آپس میں ایک دفاعی معاہدہ کرلینا چاہئے۔ نیٹو چارٹر کی شق پانچ کے تحت رکن ممالک میں سے کسی ایک پر حملہ ہو تو اسے پورے نیٹو پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ او آئی سی اپنے چارٹر میں کیوں ایسا کوئی شق شامل نہیں کرسکتی۔ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 کے تحت ایسے معاہدے کی گنجائش موجود ہے۔ دوسری طرف او آئی سی اپنے رکن ممالک میں صحت، تعلیم، ترقی اور خوشحالی کیلئے باہمی تعاون کو یقینی بناسکتا ہے۔ اس کیلئے اسے چوکس اور زیرک قیادت کی ضرورت ہے جو او آء سی کیلئے قابل حصول مقاصد ترتیب دے اور ان کے حصول کیلئے منصوبہ عمل تیار کرے۔او آئی سی کو رکن ممالک کے مابین تجارت کو بڑھانا ہوگا۔ مسلمان ریاستوں کے باہمی تنازعات طے کرنے کا موثر نظام بنانا ہوگا اور خود کو معاشی اور سماجی ترقی کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنانا ہوگا۔ یہ تعلیمی، معاشی اور صنعتی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔