روس یوکرین تنازعے نے جب سے جنگ کی صورت اختیار کر لی ہے آئے روز نت نئے اقدامات دونوں طرف سے سامنے آرہے ہیں اور بد قسمتی سے معاملات اس موڑ پر پہنچنے لگے ہیں جہاں سے واپسی اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوسکتی ہے۔پہلے تو امریکہ کو یقین ہی نہیں آرہاتھا کہ روس یوکرین پر براہ راست حملہ کردیگا، اور پھر جب یہ مرحلہ طے ہوا تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے وہ روس کو اسی صورتحال میں گھیرنا چاہتے تھے اور یوکرین کو روس کیلئے یورپ کا افغانستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ روسی وزیر دفاع نے اعلان کیا ہے کہ یوکرین پرحملے کے کلیدی اہداف کو حاصل کرلیا گیا ہے اور اب وہ مشرقی یوکرین کو آزاد کرنے کے منصوبے کو تکمیل تک پہنچائے گا۔دوسری طرف امریکی صدر نے پولینڈ میں یوکرینی مہاجرین سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کیلئے نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔ یہ وہ باتیں ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حالات بہت نازک موڑ پر پہنچے ہیں۔ روس میں حکومت کی تبدیلی کوئی بچوں کا کھیل نہیں جس کا بیڑا امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے اٹھا لیا ہے۔
جوبائیڈن نے گزشتہ روزوارسا کے شاہی محل کے دورے کے موقع پر یہ بیان دیا تاہم ان کے اس بیان سے چند لمحوں پہلے ہی روس کی طرف سے لیوو پر چار میزائل داغے گئے تھے۔ یوکرین کا یہ علاقہ پولینڈ کی سرحد سے قریب 60 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ان حملوں کے بارے میں خبریں یوکرینی حکام کی طرف سے موصول ہوئیں جنہوں نے ایک اور روسی حملے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے کے نتیجے میں لیوو کے صنعتی علاقے کو نشانہ بنایا گیا جو بائیڈن نے ہفتے کو اپنا چار روزہ یورپی دورہ پولینڈ میں ایک شعلہ بیان تقریر کے ساتھ ختم کیاجس میں کہی ہوئی باتیں ایسی ہیں کہ انہیں تقریر کی حد تک ہی درست قرار دیا جاسکتا ہے عملی صورت پانے والی باتیں نہیں ہیں۔ بائیڈن 23 مارچ کو یورپ پہنچے تھے جہاں انہوں نے یورپی سیاسی اور سفارتی مرکز برسلز میں تین ہنگامی سربراہی اجلاسوں میں شرکت کی۔ امریکی صدر کا یورپ کا یہ دورہ یوکرین پر روس کی چڑھائی اور مشرقی یورپ کے خطے میں پھیلتی ہوئی بدامنی اور عدم استحکام کے تناظر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ممالک کی طرف سے روس پر غیر معمولی دباؤ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ تاہم اس کے نتائج یوکرین کے حق میں اچھے ہر گز نہیں۔ نہ تو نیٹو اور امریکہ نو فلائی زون قائم کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں اور نہ ہی روس کے ساتھ براہ راست ٹکر کی جرات کر سکتے ہیں۔ اس وقت یوکرین نشان عبرت ہے کہ امریکہ کی پالیسیوں کی پیروی کرکے اپنے پڑوسی ملک سے دشمنی مول لینے کے نتائج کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے یورپ کے دورے کے موقع پر جو لہجہ اختیار کیا ہے اس سے بہت سے یورپی مبصرین بھی خوش نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ امریکہ یورپ کو جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے اور یہ کسی بھی لحاظ سے کوئی مثبت پیش رفت نہیں۔کیونکہ جس طرح بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب کو نامناسب لقب سے نوازا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ کسی بھی صدر کا دوسرے ملک کے صدر کے حوالے سے یہ کہنا نہ صرف سفارتی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ یہ امریکہ کی انتشار پھیلانے والی پالیسی کا اظہار ہے۔ ادھر امریکی صدر کے اس بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کریملن نے اسے رد کر دیا اور کہا کہ یہ بائیڈن کا فیصلہ نہیں ہوسکتا، روس کا صدر روسی عوام منتخب کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روسی صدر ولادمیر پیوٹن کی مقبولیت روس میں عروج پر ہے اور اس نے وہ حیثیت حاصل کرلی ہے کہ اسے موجودہ حالات میں کوئی چیلنج کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ روسی عوام ولادمیر پیوٹن کو دوبارہ روس کے شاندار ماضی کو واپس لانے ولا رہنما سمجھتے ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں۔جہاں تک روس یوکرین جنگ کے اثرات کا معاملہ ہے تو یوکرین کے صدر زیلنسکی نے روس کی جنگ کے سبب پیدا ہونے والی اناج کی قلت سے دنیا کو خبر دار کیا ہے۔ یوکرین دنیا کے اناج پیدا کرنے والے اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یوکرینی صدر نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں ان کا ملک دیگر ممالک کو غذائی اشیا فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اس کا نتیجہ لازمی طور پر غذائی اجناس کی بلندترین قیمتوں کی صورت میں سامنے آئے گا اور ایسے حالات میں کہ کورونا وبا نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے یہ بحران عالمی برداری کو مزید مشکلات میں ڈال سکتا ہے۔