سائنسدانوں نے گذشتہ 50سا لوں کے اعداد و شمار اور آئندہ 50سا لوں کے خد شات کو سامنے رکھ کر پیش گوئی کی ہے کہ چند سا لوں کے اندر دنیا میں پا نی کا بحران آئے گا اور یہ ایسا شدید بحران ہو گا کہ لو گ توا نا ئی کے بحران سمیت تما م بحرانوں کو بھو ل جا ئینگے ہم نے سکول کے زما نے سے پڑھا اور دیکھا ہے کہ دنیا میں کر ہ ارض یعنی ہمارے سیارے زمین کا دو تہا ئی حصہ پا نی اور ایک تہا ئی حصہ خشکی پر مشتمل ہے درست اعداد دو شما ر کے مطابق 70فیصد پا نی اور 30فیصد خشکی ہے پا نی کا 97فیصد سمندروں میں بہتا ہے جو کھارا ہو نے کی وجہ سے نباتات‘ حیوا نا ت اور انسانی آبادی کیلئے ناقابل استفادہ ہے کسی کے استعمال میں آنے کے لائق نہیں ہے گویا دستیاب پا نی کا صرف 3فیصد حصہ دنیا کی سات ارب آبادی کے ساتھ اربوں کی تعداد میں پر ند‘ چرند اور نباتات کی ضروریات پوری کرتا ہے سائنسدانوں نے دو موٹے موٹے شواہد کی بنیاد پر پا نی کے بحران کی پیش گو ئی کی ہے پہلی شہا دت یہ ہے کہ دنیا کے تما م خطوں میں سرسبزاور آباد زمینات صحرا ؤں میں بدلتے جا رہے ہیں اس کو ”ڈیزرٹی فیکشن“ یعنی صحرا زدگی کا عمل کہا جا تا ہے آباد رقبے میں اتنا اضافہ نہیں ہو رہا جتنا اضا فہ بنجر ہونے والے رقبے میں دیکھا جا رہا ہے۔
دوسری شہادت یہ ہے کہ دنیا کے 85فیصد شہروں میں نلکوں کا پا نی پینے کے قابل نہیں رہا‘پینے کیلئے الگ ٹینکر اور الگ بو تلوں کا پا نی خریدنا پڑتا ہے جو پینے کے ساتھ ساتھ خوراک میں بھی کا م آتا ہے دونوں شہا دتیں ایسی ہیں جو سائنسدانو ں کے ساتھ ساتھ عام آدمی اور عمو می طور پر تما م شہریوں کے تجربے میں آرہی ہیں فرق یہ ہے کہ عام شہری کے پاس اعداد و شمار نہیں ہیں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک منٹ میں 23ایکڑ زمین کا رقبہ صحرا زدگی کا شکار ہورہا ہے اکیسوی صدی کے وسط یعنی 2050ء تک مو جو دہ آباد رقبے کا ایک چوتھا ئی یعنی 25فیصد حصہ بنجر ہو جا ئے گا جس کی وجہ سے زرعی پیداوار بھی متاثر ہوگی جنگلات کا رقبہ بھی متاثر ہو گا‘ چرا گا ہیں بھی متا ثر ہو نگی ایک محتاط اندازے کے مطا بق 2025ء تک دنیا کی سوا ارب کے قریب آبادی کو پا نی کی قلت کا سامنا ہو گا 2045ء تک ایک ارب 35کروڑ آبادی پا نی کی شدید قلت سے دو چار ہو جائیگی جبکہ مزید 3 ارب کی آبادی پا نی کی قلت کے دباؤ میں زندگی گزارے گی سائنس کی بنیاد پر کہا نیاں‘ افسا نے اور ناول لکھنے والے ادیبوں نے اور دا نشوروں نے ابھی سے اگلی صدی کے جو نقوش اپنی تخلیقات میں دکھا ئی ہیں ان میں ایسے منا ظر دیکھے جا سکتے ہیں کہ ایک کنویں پر ہزاروں افراد کا ہجوم ہے جس کو ایک بو تل پا نی ملتا ہے وہ خو شی سے پھو لے نہیں سما تا۔
ایسے ڈائیلاگ یا مکا لمے بھی لکھے گئے ہیں جن میں اپنے ہمسایے کو کپڑے دھو تے ہوئے دیکھ کر ایک خا تون حیرت کا اظہار کریگی کہ تمہیں پانی کہاں سے ملا ہے؟ اس طرح کے مکا لمے بھی نظر سے گذر تے ہیں کہ سکول میں ایک بچہ پا نی کی بوتل لے کر آئیگا تو سارے بچے اسکو رشک کی نظر سے دیکھیں گے کتنے ما لدار گھرا نے کا بچہ ہے جو پا نی کی بو تل لیکر سکول آتا ہے! اس وقت ہمارے پیارے ملک پا کستا ن کے اندر پا نی کی قلت کے جو آثا ر نظر آتے ہیں وہ مستقبل کے بڑے خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں ما ہرین نے اندازہ لگا یا ہے کہ پا کستان کے 80فیصد رقبے کو صحرا زدگی یا بنجر ہونے کا خطرہ درپیش ہے ایک طرف بڑے بڑے برف زار یا گلیشیر پگھل کر ختم ہورہے ہیں دوسری طرف ندی نا لوں اور دریاؤں کا پا نی آلود گی کے باعث قابل استعمال نہیں رہتا‘ صاف پانی کے ذخا ئر کی شدید کمی ہے تیسری طرف شہری اور صنعتی آلود گی کے سبب سے سمندروں کا پانی اتنا آلو دہ ہوا ہے کہ مچھلیوں اور مرغابیوں سمیت سمندری حیات اور مینگرو سمیت آبی نباتات کیلئے زہریلے مواد سے بھر گیا ہے۔ موجودہ صدی اور آنیوالی صدی کیلئے پانی کے بحران کی پیش گو ئی اس بات کا تقا ضا کر تی ہے کہ ہم پا نی کے استعمال میں احتیاط کے ساتھ صبر و شکر کی عادت ڈالیں اور آنے والے بحرا ن کیلئے تیار ی کریں۔