سکور کارڈ

آسٹریلین کرکٹ ٹیم کے دورہئ پاکستان میں 3 ٹیسٹ میچز (چار‘ بارہ اور اکیس مارچ سے) کھیلے گئے جبکہ تین ون ڈیز پر مشتمل سیریز کا پہلا مقابلہ کل یعنی 29 مارچ‘ دوسرا ون ڈے اکتیس مارچ اور تیسرا ون ڈے دو اپریل کو کھیلا جائے گا جبکہ دورے کا آخری مقابلہ ’ٹی ٹوئنٹی میچ‘ ہوگا جو ’پانچ اپریل‘ دیگر ون ڈیز کی طرح قذافی سٹیڈیم لاہور میں ہوگا۔ پاک آسٹریلیا ’ٹیسٹ سریز‘ کے اختتام پر تلخ و شیریں یادیں بھی ’سکور کارڈ‘ پر درج ہیں جیسا کہ سیریز میں راولپنڈی ٹیسٹ جیسا مقابلہ بھی کھیلا گیا کہ جو کچھ ہی عرصے میں تاریخ کے کوڑے دان میں پڑا ہوگا۔ امام الحق کی دونوں اننگز میں سنچریاں‘ اظہر علی کی تقریباً ڈبل سنچری اور نعمان علی کی وکٹیں‘ یہ سب بھولی بسری یاد بن جائیں گی کیونکہ اس میچ میں کچھ ایسا تھا ہی نہیں کہ جسے بہت عرصے تک یاد رکھا جائے پھر کراچی یعنی پاکستان کے قلعے میں دوسرا ٹیسٹ ہوا، جہاں پل میں تولہ اور پل میں ماشہ کی طرح میچ نے خوب رنگ بدلے اور بالآخر ’تاریخ کے بہترین بے نتیجہ مقابلوں‘ میں شمار ہوگیا۔ اس میچ کی عظمت کا اندازہ شاید ابھی نہ ہو لیکن پاکستان کا یہ ’عظیم فرار‘ بہت طویل عرصے تک یاد رہے گا۔ ٹیمیں لاہور آئیں تو آخری منزل‘ آخری پڑاؤ کہ جہاں پاکستان ہارتے ہارتے بالآخر ہار ہی گیا۔ پہلی اننگ میں صرف بیس رنز پر سات وکٹیں گنوانے کے بعد ایک سو چونسٹھ رنز کا خسارہ اور آخری اننگ میں تین سو اکیاون رنز کا مشکل ہدف ناممکن ہوگیا اور آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کرکے سیریز بھی صفر ایک سے جیت لی۔
 یوں تو یہ تاریخی سیریز اپنی کئی یادیں پیچھے چھوڑ گئی ہے مگر پانچ اچھی اور پانچ مایوس کن یادیں قابل ذکر ہیں۔ گوکہ پنڈی ٹیسٹ پوری سیریز کا سب سے مایوس کن مقابلہ تھا لیکن ایک حوالے سے یہ سب سے الگ اور سب سے جدا رہا اور وہ تماشائیوں کے لحاظ سے تھا۔ پہلے ٹیسٹ کے تقریباً تمام دن تماشائیوں کی بہت بڑی تعداد اسٹیڈیم میں موجود رہی جو میچ کی سست ترین پیشرفت کے باوجود جھپٹتی‘ پلٹتی اور پلٹ کر جھپٹتی رہی اور یوں ماحول گرماتی رہی۔ منفرد پلے کارڈز‘ مہمان کھلاڑیوں کا بھرپور خیر مقدم اور سب سے بڑھ کر کان پھاڑ دینے والے باجے بجائے گئے۔ کراچی میں کھیلا گیا دوسرا ٹیسٹ بظاہر بے نتیجہ ثابت ہوا لیکن اسے پاکستان کی بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہئے کیونکہ چارسوآٹھ رنز کے خسارے کے باوجود پاکستان یہ میچ بچانے میں کامیاب ہو گیا جو انہونی سی بات لگتی ہے۔ آسٹریلیا نے پاکستان کو پانچ سو چھ رنز کا ہدف دیا تھا اور آخری تقریباً دو دن کا کھیل باقی تھا۔ یہاں پاکستان نے تقریباً ایک سو بہتر اوورز تک آسٹریلیا کی باؤلنگ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ناقابلِ یقین کو یقین کے دائرے میں لے آیا‘ بابر اعظم نے سب سے زیادہ ایک سو چھیانوے رنز بنائے جبکہ رضوان کی ناٹ آؤٹ سنچری بھی نمایاں رہی لیکن ایک خاموش ہیرو عبداللہ شفیق تھے جنہوں نے اپنے چھیانوے رنز کیلئے تین سو پانچ گیندیں استعمال کیں۔ کراچی میں ”یقینی فتح“ سے محروم ہوجانے کے باوجود آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کے اعتماد میں کوئی کمی نہیں آئی۔
 لاہور میں انہوں نے سلسلہ وہیں سے جوڑا‘ جہاں سے ٹوٹا تھا۔ آخری دن جب انہیں کامیابی کا یقین ہوگیا تو وہ بہت خوش و خرم نظر آئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کے جشن کے انداز کی نقل تک کی مثلاً عثمان خواجہ کو ساجد علی کے انداز کی نقل کرتے دیکھا گیا۔ حسن علی کی وکٹ گئی تو ڈیوڈ وارنر نے وہی مخصوص ’جنریٹر‘ انداز اپنایا جو حسن علی وکٹوں کے بعد اختیار کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس بہتی گنگا میں اپنی پہلی ٹیسٹ سیریز کھیلنے والے مچل سویپسن نے بھی ہاتھ دھوئے کہ جو شاہین آفریدی کے مخصوص انداز کی نقل کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ لاہور ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں آسٹریلیا پانچ وکٹوں پر تین سو اکتالیس رنز بنا چکا تھا جب بادِ نسیم چلی اور شاہین نے پرواز کی۔ صرف پچاس رنز کے اضافے سے پاکستان نے آسٹریلیا کی باقی وکٹیں حاصل کرکے تہلکہ مچا دیا۔ یہ لاہور ٹیسٹ میں پاکستان کے لئے واحد خوشی کا موقع تھا جس میں نسیم شاہ اور شاہین آفریدی نے چار چار وکٹیں حاصل کیں۔ کراچی ٹیسٹ میں آسٹریلیا کی جانب سے پاکستان کو فالو آن پر مجبور نہ کرنے کے فیصلے پر کڑی تنقید ہوئی تھی بلکہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان کے میچ میں واپس آنے کی وجہ یہی فیصلہ بنا۔ لیکن پیٹ کمنز کی جرأت دیکھیں کہ جب لاہور میں تقریباً ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہوا تو انہوں نے بالکل دریغ نہ کیا اور وہی قدم اٹھایا جس پر تنقید ہوئی تھی۔ انہوں نے اس وقت دوسری اننگ ڈکلیئر کی جب آسٹریلیا دوسوستائیس رنز بنا چکا تھا اور اس کی مجموعی برتری ساڑھے تین سو رنز کی تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان نے کراچی میں پانچ سو چھ رنز کے تعاقب میں 443رنز بنا لئے تھے۔ پھر جب لاہور ٹیسٹ کی آخری اننگ میں پاکستانی اوپنرز نے ہی 73رنز کی شراکت کر ڈالی تو کہا جانے لگا کہ کمنز نے پاکستان کی طاقت کا غلط اندازہ لگا لیا۔ بہرحال آخری روز ان کا یہ فیصلہ صد فی صد درست ثابت ہوا۔ پاکستان ان کے اندازے سے کہیں پہلے ہی آل آؤٹ ہوگیا اور یوں سیریز آسٹریلیا کے دامن میں آ گری۔