کالم کی تحریر

صرف کالم تو لکھنا نہیں ہوتا۔بلکہ کالم لکھ کرگاہے گاہے کہیں محفلوں میں کہیں سٹوڈنٹس کے درمیان جوابات بھی دینا ہوتے ہیں۔ سوال ہوتا ہے کہ آپ کالم کتنی دیر میں لکھتے ہیں۔دوسرا سوال جو عام دہرایا جاتا ہے یہ کہ آپ کالم کے لئے مواد کہاں سے لاتے ہیں۔پھر ایک اور سوال بھی کہ اتنی مصروفیت کے باوجود آپ کالم کے لئے کس طرح وقت نکال پاتے ہیں۔اس کے علاوہ درجنوں سوالات ہیں۔پھر یہ بھی کہ آپ کالم کس وقت لکھتے ہیں۔اس سے متعلقہ بہت سے سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جب کالم رائٹر معاشرے کا حصہ بن جاتا ہے تو سوسائٹی اس کو اپنا لیتی ہے۔ اس کو اپناجان کر اس پر اپناحق جتلاتی ہے۔پھر اس میں چونکہ دوسروں کا سکھلانے کاکام ہے۔سو جوابات دینے میں کوشش ہوتی ہے کہ سامنے والے کے پلے کچھ پڑے۔پھر خاص طور پر سٹوڈنٹس کو جوابات دینے میں سخاوت کا مظاہرہ کرناپڑتا ہے۔کیونکہ یہ ان کے سیکھنے کی عمر ہوتی ہے۔بعض اوقات کلاس کے دوران میں طلباء سوالات سوچ کر آئے ہوتے ہیں۔ لیکچر کے دوران یا اس سے پہلے میری کالم نگاری پر چند سوالات کرتے ہیں۔ان کا دل رکھنے کی خاطر جواب دینا پڑتا ہے۔کیونکہ جواب کا سلسلہ طویل ہو جائے تو ہاتھوں میں تھامی ہوئی کتاب منتظر رہ جاتی ہے کہ اسے بھی پڑھا جائے۔کوئی پوچھتا ہے آپ پشاور ہی کے بارے میں کیو ں لکھتے ہیں۔ کیا آپ کے پاس دوسرے پوائنٹس نہیں ہیں۔ ان کو کیا بتلائیں اور کیسے قائل کریں کہ پشاور کے بغیر ہمارا گذارا نہیں ہے۔پھر یہ بھی کہ ہم اگر اپنے ہی شہر کے مسائل وغیرہ کے بارے میں قلم آرائی نہ کریں تو باہر کے شہروں سے کون آئے گا جو ہمارے شہر کے مسائل بیان کرے۔سو ہم نہیں لکھیں گے تو کون لکھے گا۔بہت سے لوگ اس بات سے برا مناتے ہیں کہ آپ پشاور کو نہیں چھوڑتے۔
ہم یہ کیسے کہیں کہ اگر ہم نے پشاو رکو چھوڑ دیا تو جواب میں یہ شہر بھی ہمیں چھوڑ دے گا۔ اس کے ساتھ ہماری دل لگی اور دل کی لگی دونوں اُجڑ جائیں گی۔ ہم اگر اپنے شہر کے گلی کوچوں کے مسئلے بیان کریں گے تب اگلے کے دل ودماغ تک پہنچیں گے۔پھر بعد میں اس پر کوئی نہ کوئی ایکشن ہوگا۔ یہ نہیں کہ سرکاری گھروں میں بیٹھے ہوئے افسران بالکل ناواقف ہیں۔وہ پڑھتے ہیں اور باقاعدہ ہمیں اس کا فیڈ بیک بھی آتا ہے۔بلکہ خاطر غزنوی کے شعر کا ساحال ہے کہ ”میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں۔ مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے“۔ ہم جہاں جائیں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم سے پہلے ہمارے تعارف کے طور پر ہمارے کالم وہاں پہنچے ہوتے ہیں۔پڑھے جاتے ہیں اور اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔ میرے پا س اس کی دسیوں مثالیں ہیں۔ہمارا کالم پڑھ کر دس بارہ برس پہلے پچھلی حکومتوں کے ایک ینگ وزیر اعلیٰ نے اسلامیہ کالج برائے خواتین کو ساٹھ لاکھ کی بس دلوائی تھی۔ جس پر بعض افسروں نے برا بھی منایا۔ ہمیں کہا کیا اب ہم اتنے فارغ ہیں کہ تمہارے کالم پر بسیں بانٹے پھریں گے۔ مگر سرکار کا حکم تھا انھوں نے بجا لانا تھا۔ افسو س کہ ان کو بچیوں کیلئے اپنی بس ہونے کا خیا ل اچھا نہیں لگا۔ وہ تو اس روٹ پر چلنے والی منی بسوں میں دھکے کھاتے ہوئے گھر آتی تھیں۔پھر یہ ہوا کہ خاتون سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن نے اس نیاز مند کو اپنے دفتر میں بلوا کرکالج کی پرنسپل کوبس خریدنے کا چیک دیتے وقت فوٹو سیشن میں ہمیں بھی لا موجود کیا۔نوازش ہے ان کی۔کالم کے بارے میں سوال ہوتا ہے کہ میں مواد کہاں سے لاتا ہوں۔ہم جواب دینے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ 
کالم کے لئے مواد توہم شہر ہی میں گھوم پھر کر تلاش کرتے ہیں۔جیسے گلیوں میں بورا چھان والا گھومتا ہے۔ ویسے ہم شہر کے اندرون تک چلے جاتے ہیں۔یہا ں وہاں دیکھتے جاتے ہیں۔نگاہوں میں مقناطیس لے کر جس طرف دیکھیں ہمیں مسائل کے کانٹے اورکیل آنکھوں میں چھبتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔پھر ایک آدھ مسئلے کی رڑک آنکھ میں زیادہ ہونے لگتی ہے۔ ہم اس وقت اس مسئلے کو ملتوی کرنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ اتنا زور آور ہوتاہے زبردستی اپنے آپ کو لکھواتا ہے۔ہم ایسے میں مجبور ہو جاتے ہیں۔ جب قلم اٹھاتے ہیں تو اس مسئلے کو تو تسکین ہوگی کہ اب میں لکھا جا چکا ہوں خود ہمارے دل کا بخار بھی نکل جاتا ہے۔مسئلہ حل ہونہ ہو آنکھوں کی رڑک میں کمی آناشروع ہوجاتی ہے۔وہ پوچھتے ہیں کیا آپ کو موضوعات کی کمی نہیں ہوتی۔ اس پراپنی ہلکی سی مسکراہٹ کا احساس خود کو ہوتا ہے۔وہ یہ کہ ہمارا باہر کا ترقی یافتہ معاشرہ نہیں ہے۔جہاں مسئلے مسائل کم ہیں۔مسئلے حل ہو ں نہ ہوں یہ کیا کم ہے کہ کالم کے تحریر ہونے کے بعد ہماری آنکھوں دل اور روح کی دکھن میں قرار آتا ہے۔ہمارے لئے تو یہی ایوارڈ او رریوارڈ محنتانہ کافی ہے۔بلکہ میں تو ایک بار پریشان حال تھا۔ کیونکہ کالم کا موضوع نہیں مل رہاتھا۔ مرغی جب انڈا دینا چاہتی ہے تو گھر کے مختلف حصوں میں گھومتی ہے۔کمروں میں بھی جاتی ہے۔ جب کہیں انڈا دیتی ہے تو پھر اسے سکون مل جاتا ہے۔میں نے اس پریشانی میں موٹر بائیک نکالی اور بازار کاایک چکر لگا کر آگیا۔ آدھ گھنٹے کے ا س سفر میں جو دیکھا وہ الگ الگ موضوعات پر کالموں کی ایک سیریل تھی۔مجھے مواد مل گیا تھا۔ سو یہا ں رہنا ہے تو کالموں کے موضوعات اور مواد کے لئے پریشان کیوں ہوا جائے۔ کیوں نہ گھوما جائے پھرا جائے اور ان موضوعات پر لکھا جائے۔