موسم کی حدت بڑھنے کے ساتھ سیاسی گرما گرمی بھی اس وقت عروج پر ہے اب اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم دونوں طرف سے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خدا نخواستہ اس وقت ملک کسی بھی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔یہ تو ایک جملہ معترضہ ہوگیا اب کچھ تذکرہ ہو ایک دیرینہ مسئلے کا جس کا سامنا کئی عشروں سے وطن عزیز کے باسیوں کو ہے۔جب بھی گرمی کا موسم آتاہے تو بجلی کے حوالے سے مسائل سر اٹھانے لگتے ہیں،لوڈ شیڈنگ کے نتیجے میں عام آدمی کو تو مشکل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ملکی معیشت بھی بری طرح متاثر ہونے لگتی ہے۔یہ صورت حال باعث تشویش اس لحاظ سے ہے کہ ملک میں توانائی کے متبادل ذرائع سے استفادہ کرنے کی رفتار سست ہے۔
امریکی ڈیپارٹمنٹ آف انرجی کی ایک رپورٹ کے مطابق بغیر کسی رکاوٹ کے روزانہ تقریبا 1 لاکھ 73 ہزار ٹیرا واٹ سورج کی توانائی زمین سے ٹکراتی ہے، جو دنیا بھر میں زیر استعمال توانائی کی مقدار سے 10 گنا زیادہ ہے۔ماہرین کے مطابق شمسی توانائی کی پیداوار کیلئے پاکستان دنیا بھر میں تیسرا موزوں ترین ملک سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں سال میں 315 دن دھوپ چمکتی ہے۔ مگر پاکستان شمسی توانائی پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں ابھی 44 ویں نمبر پر ہے۔ 2019 تک پاکستان میں زیر استعمال کل توانائی کا 51 فیصد فوسل فیولز سے حاصل کیا جا رہا تھا جبکہ 2021 میں حکومت نے کاربن کے استعمال میں 50 فیصد کمی کا اعلان کیا۔ پاکستان میں بجلی کی کل پیداوار کا 49 فیصد حصہ گھروں میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر گھروں میں سولر پینلز کے استعمال کو بڑھایا جائے یا نئی تعمیر ہونے والی کمرشل عمارتوں کو مخصوص ڈیزائن سے تیار کر کے شمسی توانائی پر آپریٹ کیا جائے تو توانائی کے بحران میں کمی کے ساتھ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کو لگام ڈالنے میں بھی مدد ملے گی۔ شمسی توانائی کے حصول میں چین سب سے آگے ہے۔ چین شمسی توانائی کے حصول میں سرفہرست ملک ہے۔ وہاں 2020 میں مجموعی طور پر 261.1 ٹیرا واٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا ہوئی۔ ٹیرا واٹ فی گھنٹہ بجلی کی پیمائش کا طریقہ ہے۔ فی ٹیرا واٹ گھنٹہ بجلی کے ایک یونٹ کو کہا جاتا ہے،
جس میں فی گھنٹہ ایک کھرب واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اگرچہ سولر پینل کی انسٹالیشن پر کافی خرچا آتا ہے، جو پاکستان میں متوسط اور غریب طبقے کیلئے برداشت کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ لیکن یہاں یہ بات بھی مد نظر رکھنے کی ہے کہ مین گرڈ سے حاصل ہونے والی روایتی بجلی کا بل ہر ماہ بھرنا پڑتا ہے، اس کی فی یونٹ قیمت میں حکومت آئے روز اضافہ کرتی رہتی ہے جبکہ لوڈ شیڈنگ کا درد ِسر اور یو پی ایس کا خرچہ الگ سے ہے۔ لہذا دور رس فوائد اور ماحول کی بہتری کیلئے گھریلو استعمال میں شمسی توانائی کو بڑھانا وقت کی ضرورت ہے۔ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں شمسی توانائی کا شعبہ 26 فیصد سالانہ کے حساب سے ترقی کر رہا ہے۔ یہ امر یقینا باعثِ حیرت ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان میں یہ گروتھ 50 فیصد نوٹ کی گئی، جس کی ایک بڑی وجہ سولر پینل اور انورٹرز پر حکومت کی جانب سے درآمدی ڈیوٹی پر چھوٹ کا اعلان تھا۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس دوران تقریبا 120 ارب روپے کے سولر پینل در آمد کیے گئے،
جن سے 2380 میگا واٹ بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔مگر 2022 کے اوائل میں شمسی توانائی سیکٹر پر 20 فیصد اضافی ٹیکس لگا دیا گیا۔ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث فی الوقت دنیا بھر کے ممالک 2050 تک کاربن نیوٹرل کے اہداف حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ایسے میں شمسی توانائی کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2019 تک دنیا بھر میں سولر پینلز کی افادیت 16 فیصد تھی، جو محض تین برسوں میں بڑھ کر 26 فیصد ہو گئی ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شمسی توانائی کے حوالے سے نمایاں کارنامے انجام دینے والوں میں کئی پاکستانی سائنسدان شامل ہیں بلکہ سرفہرست ہیں، تاہم ان کی خدمات سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے اور قدرت کے اس عطیے کو بروئے کار لانے کیلئے منظم کوششوں کی ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے ہم نے کبھی من حیث القوم قدرتی وسائل کی قدر نہیں کی۔ ایک طرف اگر ہم پانی کے بیش بہا ذخیرے کو ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو دوسری طرف سورج کی روشنی کی فراوانی سے بھی فائدہ اٹھانے میں تساہل کا شکار ہیں۔ڈھیر سارا وہ پانی جس سے صحراؤں کو سرسبز نخلستانوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے مناسب ذخائر آب نہ ہونے کے باعث سمندر برد ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ ہم شمسی توانائی کے ساتھ بھی کررہے ہیں۔ چین نے وسیع رقبے پر شمسی توانائی کے ایسے فارم بنائے ہیں کہ جن سے بڑے پیمانے پر توانائی پیدا ہوکر شہروں اور قصبوں میں لوگوں کی زندگیاں بدل رہی ہے۔ہم اس سلسلے میں چین کے تجربات سے استفادہ کرسکتے ہیں۔