کرہئ ارض کے موسم جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اُس کے منفی اثرات پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے ”گڈ نیوز“ نہیں کیونکہ اچھا وقت‘ بُرے وقت سے تبدیل ہو رہا ہے اُور موسمیاتی تبدیلیاں اور بڑھتی ہوئی آبادی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ کئی ممالک میں غذائی تحفظ و انسانی بقا کو متاثر کر رہے ہیں۔ ’بائیس مارچ‘ سے شروع ہونے والا ہفتہ آج (اُنتیس مارچ) تک منانے کا مقصد اِس جانب توجہ مبذول کروانا ہے کہ ”زیر زمین پانی کے ذخیرے کی حفاظت کی جائے۔“ اس حقیقت کو یاد دلانے کا یہ ایک اچھا وقت ہے کہ پانی کی زیرزمین سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے اور اس کے نتیجے میں بحرانی صورت حال جلد پیدا ہونے کا امکان ہے جس کے نتیجے میں بیشتر علاقوں کے رہنے والے مشکلات کا شکار ہوں گے۔ دنیا بھر کے لوگوں کی پانی کے استعمال کی عادات پر توجہ اور بہتری کی ضرورت ہے۔ جیسے جیسے پانی کی سطح کم ہوتی جائے گی‘ آنے والی نسلوں کو پانی تک رسائی کے لئے سخت دباؤ (مشکل حالات) کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان پہلے ہی اپنے بیشتر علاقوں خصوصاً شہری مراکز میں پانی کی قلت کا سامنا کر رہا ہے۔
اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے متعلقہ حکومتی اداروں کو پانی کے تحفظ اور انتظام کے لئے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ معمول اُور روائتی و نمائشی کوششوں سے بہتری کا امکان نہیں ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ پانی کی بچت کے لئے انقلابی و ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں ورنہ ہماری آنے والی نسلوں کی بقا داؤ پر لگ جائے گی اور اس سلسلے میں نہ صرف وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے بلکہ جملہ صوبائی حکومتوں کا بھی فرض ہے کہ پانی کے تحفظ اُور اِس شعبے میں ترجیحی بنیادوں پر سرمایہ کاری کریں۔ اس وقت زیرزمین پانی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اِسی سے ہماری زیادہ تر زراعت اور گھریلو ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ پانی کا جس بیدردی سے صنعتی استعمال ہو رہا ہے اُور جس طرح موٹر گاڑیوں کی صفائی کے لئے سروس اسٹیشنوں سے لیکر فراغت میں پانی کا چھڑکاؤ کرنے تک‘ زیرزمین ذخیرے سے پانی حاصل کر کے ضائع کیا جاتا ہے اِس طرزعمل میں بھی تبدیلی آنی چاہئے۔
آلودہ پانی کے بنا تطہیر دریاؤں ندی نالوں میں بہانے پر اگرچہ پابندی سے متعلق متعدد قوانین و قواعد موجود ہیں لیکن اُن پر خاطرخواہ عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آتا جبکہ صنعتی استعمال کے لئے ضرورت سے زیادہ زمینی پانی استعمال کیا جاتا ہے اُور یہ دونوں محرکات ماحول دشمن ہیں! صنعتی شعبے کی طرف سے یہ غفلت بہت زیادہ آلودگی پیدا کرنے کا باعث ہے اور زیر زمین پانی تیزی سے ناقابل استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان کو بنیادی طور پر اپنے پانی کے ذخیرہ کو محفوظ بنانے اُور اِس میں اضافے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاہم یہ بالکل واضح نہیں کہ بڑے آبی ذخائر (میگا ڈیم) اس تکنیکی مسئلے اُور ضرورت کے لئے کافی ہوں گے یا نہیں۔ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کو دیکھا جائے تو اِس بات کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی ہے کہ پاکستان کو مزید اُور زیادہ بڑی تعداد میں ڈیم بنانے کی ضرورت ہے اگرچہ کچھ پن بجلی کے منصوبے بھی ضروری ہیں لیکن پاکستان کی بنیادی توجہ پانی کے تحفظ اور اِس کے مؤثر (ضروری) استعمال پر ہونی چاہئے۔ زراعت پانی کا سب سے بڑا صارف ہے اور پانی کی تقسیم کے موجودہ طریقے زرعی شعبے کے لئے زیادہ سے زیادہ پانی کی دستیابی ضروری ہے۔
لائق توجہ ہے کہ فی الوقت آبپاشی کی ضروریات کے لئے پانی ضرورت کی بجائے زمین کے رقبے کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کی ایک بڑی مقدار ضائع ہو رہی ہے۔ پانی کی تقسیم کے لئے استعمال ہونے والا نہری نظام بھی خرابیوں کا مجموعہ ہے جس سے پانی ضائع ہوتا ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخائر میں مصنوعی طریقوں سے بھی اضافہ ممکن ہے لیکن اِس بارے میں قومی ترجیحات وضع کرنا ہوں گی۔ اعدادوشمار کے مطابق سال دوہزارپچیس تک پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کی آبادی کا تین چوتھائی حصہ پہلے ہی پانی کی شدید قلت کا سامنا کر رہا ہے چونکہ موسم بدل رہے ہیں اُور سیلاب و خشک سالی بار بار اور پہلے سے زیادہ شدت سے اپنی طاقت دکھا رہی ہے اِس لئے موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے بحرانوں سے نمٹنے کے لئے بہتر طور طریقوں سے لیس ہونے کی ضرورت ہے۔اس وقت پوری دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے اور عالمی برادری نے اس ضمن میں جو اقدامات کئے ہیں وہ ماضی کے مقابلے میں بہت مختلف ہیں اور ان میں حقیقی اہداف کو حاصل کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والوں شعبوں میں زراعت سرفہرست ہے جہاں گرمی میں شدت آنے سے پانی کی کمیابی کا مسئلہ سامنے آسکتا ہے اور زراعت کو جو مسائل درپیش ہوں گے ان سے براہ راست ہماری غذائی ضروریات متاثر ہوں گی اس سلسلے میں اولین ترجیح کے طور پر ایسے اقدامات ضروری ہیں کہ پانی کی کمی کا مسئلہ حل ہو اور ذخائر آب کی طرف فوری توجہ دینی ہوگی جہاں تک پانی کے استعمال کا معاملہ ہے تو شہروں میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لئے موثر اقدامات اٹھانا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ گاڑیوں کو دھونے اور دوسرے ایسے کاموں میں صاف پانی کا استعمال غیر دانشمندانہ عمل ہے جہاں استعمال شدہ پانی کو دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ امر حوصلہ افزاء ہے کہ موجودہ حکومت اس سلسلے میں زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔