تم میرے گیت یاد رکھنا

بلیک اینڈ وائٹ سکرین کا زمانہ اب بھی یاد آتا ہے۔اب بھی را ت گئے جب کسی ٹی وی چینل پر پرانے گانوں کا پروگرام لگتا ہے تو دل اس کی طرف کھچا چلا جاتا ہے۔آج کی نئی نسل کو رنگین ٹی وی سے سروکار ہے۔وہ اسی میں خوش ہوتے ہیں۔ پھر بچے ہیں تو ان کو رنگین اور نت نئے انداز کے کارٹونوں سے کام ہے۔مگر ہماری نسل کے لوگ ابھی تک ماضی سے جڑے ہیں۔ رنگین فلموں کے گانوں میں ہر طرح کی او رنئی طرزکی جاذبیت کیوں نہ ہو۔مگر جب پرانے او رزیادہ پرانے دل کو چھولینے والی طرزوں میں گائے مشہور او رپھرغم زدہ گانے لگتے ہیں

تو ہم وقت کی کمی کے ہوتے ہوئے کم از کم ایک اور ممکن ہو تو آدھ گھنٹے تک یہ پچھلے زمانے کے گانے سن ہی لیتے ہیں دیکھ لیتے ہیں۔مطلب یہ نہیں کہ اب ہم اتنے بھی پرانے ہیں۔ ہر چند کہ وہ گانے ہمار ی پیدائش سے پہلے کی فلموں کے ہوتے ہیں۔مگر ان میں جو کشش ہے وہ اب تک نہیں ختم ہوئی۔وہی ہیرو ہے جو پہلے بلیک اینڈ وائٹ فلموں میں کام کر رہا تھا۔ بعد میں اس نے رنگین دو رآیا تو کلر فلموں میں اپنی پرفارمنس دکھلائی۔ مگر اس کی رنگین فلموں کوچھوڑکر اس کی پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے گانوں کااور اس کی فلموں کا اپنا مزا ہے۔وہ زمانہ سادگی کا زمانہ تھا۔ اس زمانے کے یہ گانے سدا بہار ہیں۔ہیرو اور ہیروئن پھر پس منظر میں کچھ نہیں۔مگر کیا انداز اور کیا لطف ہے۔جو بندے سے چھو ٹ نہیں جاتا۔ان گانوں میں ایک انجانی تاثیر ہے۔حالانکہ نئی کلر فلموں میں رنگینی  بہت ہے۔مگر وہ پرانے گانے آج بھی اپنی آن بان اور شان سے گائے جاتے ہیں۔اولڈ سانگ میں جو شاعری ہو تی ہے وہ اپنی جگہ باقاعدہ شاعری ہے۔ وہ سنہری دور تھا۔مگر آج کے گانوں میں ہزار رنگینیاں بھر دو ان میں وہ لطف نہیں۔ پھر اب کے گانوں میں وہ شاعری نہیں۔اب تو چند الفاظ جوڑ کر بے سرے انداز سے ہاہا اور لا لا کر کے آواز کو اوپر نیچے کرتے ہوئے گائے جانے والے گانے دلوں کو تاثیر کہاں پہنچا سکتے ہیں۔جو گانا آج گایا جاتا ہے۔وہ سن کر آپ اگر کاغذ پرلکھ لیں اور پھر اس گانے کو پڑھیں آپ کا دل چاہے گا کہ میں شعر بنانے والے فٹر کو اور موسیقی ترتیب دینے والے کاریگر کو خوب کھری کھری سناؤں۔ آج کی فلم سکرین کچھ اور ہی ڈھب پر استوار ہے۔

آج پبلک ڈیمانڈ پر فلمیں بن رہی ہیں اکثر ڈائریکٹر اور ہدایت کار اور فلم ساز کو فلم کے معیار سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔کاتا او رلے دوڑی کی طرح جلدی جلدی فلم بنائی اور مختلف سرکٹس پر پیش کردی۔ان کو اپنے پیسے کھرے کرنا ہیں۔ان کو معیار کیا ہوتا ہے اس کا آئیڈیا نہیں ہے۔پھر اگر آئیڈیا ہو بھی تو کیا کر لیں گے۔بھوکوں تو مرنا نہیں چاہیں گے۔کیونکہ فلم بینوں کی ڈیمانڈ کے مطابق اگر فلم نہ بنی تو فلم ساز کے پیسے تو گئے۔معلوم نہیں کہ پرانے گانوں میں کیا لطف ہے جو آج کی رنگین سکرین میں سب کچھ ہوتے بھی نہیں پایا جاتا۔فلموں کا معیار الگ گر گیا اور فلم بین بھی غائب ہونے لگے بلکہ سینما ہاؤس تک اجڑگئے ہیں۔کیونکہ موبائل فون نے معاشرے کی ہر پرانی چیز کو تاخت و تاراج کردیا ہے۔ا ب کسی کو کیا پڑی ہے کہ رش کے عالم میں گاڑیوں کے شور میں سے ہوتے ہوئے سینما ہاؤس کا رخ کرے۔گھر میں بیٹھ کر پکچر کیوں نہ دیکھی جائے۔اگر آج کی سینئر نسل کے لبوں پر کسی گیت کے بول کھیل جاتے ہیں تو اکثر وہ پرانے گانوں میں کسی ایک کے بول ہوتے ہیں۔ان گنت گانے ہیں۔بلکہ بعض لوگ تو کمپیوٹر میں یا موبائل میں بھی وہ پرانے گیت سننا پسند نہیں کرتے۔ان کے پاس وہی ٹیپ ریکار ڈ ہے اور مختلف اقسام کی کیسٹیں ہیں۔سنتے او رمزا لیتے جیتے ہیں۔ حالانکہ صرف ایک میموری کارڈ نے دنیا کو فتح کر رکھا ہے۔مگر وہ اس قسم کی نئی ایجادات کو فضول قرار دیتے ہیں نئے گانے تو ایک بار سن لئے اور پھر دوبارہ سننے کو جی نہیں کرتا۔اپنی اپنی پسند ہے۔کسی کی پسند اور ناپسند کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔زبان کے حوالے سے پسندیدہ گانوں کا الگ معاملہ ہے۔مگر میں اردو گانوں کی بات کرتا ہوں جو بلیک اینڈ وائٹ موویوں میں پکچرائز کئے گئے۔یہاں کس کس گانے کا نام لیا جائے کس کس کے بول دہرائے جائیں۔ ان گنت لاتعداداو ربے شمار  ہیں۔اب تو یو ٹیوب بھرا پڑا ہے۔جس گانے کو چاہو بول لکھ کر اس صداکار اس اداکار سے بلوا لو۔