ایک چشم کشا رپورٹ

پانی قدرت کا ایک انمول عطیہ ہے تاہم اس کے استعمال میں جس قدر غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس سے بے پناہ ضیاع کے باعث پانی کے ذخائر میں بے تحاشا کمی آرہی ہے۔ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ میں جو انکشافات ہوئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انسان پانی سے محروم ہونے کے قریب ہے اورپانی جیسی قیمتی دولت کا تحفظ بہت ضروری ہو چکا ہے۔ یہ اہم ہے کہ کھانا پکانے اور نہاتے وقت کتنا پانی استعمال کیا جاتا ہے؟ کافی پینے والے بھی بہت سارا پانی استعمال کرتے ہیں۔ بظاہر ایک کپ کافی بنانے پر پانی زیادہ نہیں لگتا۔ تاہم واٹر فٹ پرنٹ نیٹ ورک  ادارہ پانی کے استعمال کے حوالے سے اعداد وشمار کی روشنی میں۔ انسانی معاشروں کو تازہ پانی کی افادیت و اہمیت بارے آگہی فراہم کرتا ہے۔ اس کے مطابق ایک کپ کافی بنانے پر اصل میں 132 لٹر یا 35 گیلن پانی درکار ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اتنا پانی کافی کے بین چننے اور ان کے پیسنے پر صرف ہوتا ہے۔ اس میں وہ پانی بھی شامل ہے جو ایک کافی کے پودے کی آبیاری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ میں واضح کیاگیا ہے کہ  زمین پر قریب ہر شے کی تیاری میں پانی کا استعمال ہوتا ہے۔ ان کے مطابق کھانا پکانے اور مشروبات سازی پر بھی بے بہا پانی بہایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جتنا کوئی شخص پانی استعمال کرتا ہے وہی اس کا 'واٹر فٹ پرنٹ ہے۔ نل سے باہر آنے والا پانی براہِ راست استعمال کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تازہ پانی محدود ہے۔ اس وقت محتاط اندازوں کے مطابق زمین پر 1,386 بلین کیوبک کلومیٹر پانی موجود ہے اور اس میں صرف تین فیصد تازہ پانی ہے اور اس کی یہ مقدار بھی مسلسل گھٹ رہی ہے۔ اس تین فیصد میں سے بھی انسانی بستیوں کو صرف ایک فیصد تازہ پانی دستیاب ہے جب کہ بقیہ تازہ پانی برف کی صورت میں گلیشیئرز یا برفانی چوٹیوں پر موجود ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں نے عالمی آبادی پر پانی کی بچت کیلئے دبا بڑھا دیا ہے اور اب احتیاط کا تقاضہ ہے کہ اس قدرتی دولت کی قدر کی جائے۔ دنیا میں دو بلین افراد کو صاف پانی تک رسائی میسر نہیں اور 2.3 بلین افراد ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں پانی کی کمی پائی جاتی ہے۔ محققین کے مطابق اس وقت دنیا پانی کے بحران کا سامنا کر رہی ہے جو پریشان کن صورتِ حال کی غمازی کرتی ہے اور تشویش ناک امرتو یہ ہے کہ دستیاب پانی کی کیفیت بھی تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور جہاں اس کی اشد ضرورت ہے، وہاں اس کی کمیابی ہے یعنی جن مقامات پر پانی کی قلت کی وجہ سے قحط سالی پیدا ہو چکی ہے، اس تناظر میں بلا تخصیص ملک و قوم روئے زمین پر آباد انسانوں کو پانی  کی حفاظت اور استعمال میں بہت احتیاط درکار ہے اور صرف ایسا کرنے سے انسان دستیاب پانی میں اپنا حصہ بہتر کر سکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں زراعت کیلئے بھی پانی کی طلب بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ دنیا کی مسلسل بڑھتی آبادی ہے۔ اسی طرح صنعتی شعبے کو بھی پانی کی ضرورت رہتی ہے۔ زمین پر زرعی سیکٹر 70فیصد پانی کو استعمال کر جاتا ہے۔فصلیں یا مال مویشیوں سے حاصل کی جانے والی مصنوعات بھی کثیر مقدار میں پانی کے استعمال کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ایک کلو گری دار میوے کو 9000 لٹر سے زائد پانی درکار ہوتا ہے۔ ایک کلو گرام گوشت کیلئے 15 ہزار لٹر سے زائد پانی خرچ ہو جاتا ہے۔ البتہ عام استعمال کی سبزیاں بہت کم پانی میں زمین کے اندر پک کر تیار ہوجاتی ہیں۔ پانی استعمال کرنے والا ایک اور شعبہ کاٹن کی فصل اور کپڑے بنانے والی انڈسٹری ہے۔ 
مجموعی طور پر زمین کا 20 فیصد پانی صنعتی شعبہ استعمال کر جاتا ہے۔اب اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں پر پانی کی کمیابی کے باوجود یہ احساس بہت کم ہے کہ پانی کو ضائع ہونے سے کیسے بچانا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وقت تیزی کے ساتھ ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ وطن عزیز میں پینے کے پانی کا معیار بھی خطرناک حد تک ناقص ہے اور صاف پانی کی دستیابی انتہائی کم ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ایسے قوانین متعارف کرائے جائیں جن کی روس سے پانی کے غیر محتاط استعمال پرگرفت ہو۔ اس طرح جن کاموں کیلئے صاف پانی کی ضرورت نہیں تو ان پر پینے کے پانی کو بے تحاشا ضائع کرنے کے روئیے کا بھی سدباب ہو۔ زمین سے پانی کھینچنے کے حوالے سے قواعد و ضوابط موجود ہونا ضروری ہے۔گاڑیوں کے دھونے والے سٹیشن پر اس طرح کا انتظام ہو کہ استعمال شدہ پانی کوبار بار استعمال کیا جائے۔پینے کے پانی کی فراہمی والے پائپ سے پانی کے رساؤ کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا تاکہ دستیاب پانی سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔صرف اسی طرح کے موثر اقدامات سے ہی پانی کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے اور اس میں ہر فرد پر بھرپور ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر پانی کے ضیاع کو روکے اور یہ تصور کرے کہ جن بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال میں ہم دن رات مصروف رہتے ہیں وہ اگر پانی کی ایک ایک بوند کو ترسنے لگیں اور ان کی زندگی اجیرن ہو تو یہ کتنا تکلیف دہ مرحلہ ہوگا۔