تازہ ترین رپورٹ کے مطا بق خیبر پختونخوا میں 35فیصد بچوں کو غیر متوا زن غذا کی وجہ سے خون کی کمی کا سامنا ہے اور بچوں کی صحت کے حوالے سے یہ غیر معمولی صورت حال ہے جس کی وجہ سے40فیصد بچے جسما نی نشو نما سے محروم ہو کر پست قامتی کا شکار ہو تے ہیں 27فیصد بچوں میں وٹا من ڈی کی کمی دیکھنے میں آتی ہے 16فیصد بچے وٹا من اے کی کمی سے دو چار ہو تے ہیں 9فیصد بچوں میں آئرن کی کمی دیکھنے میں آتی ہے پشاور میں منعقدہ انٹر نیشنل فوڈ فور ٹیفی کیشن پرو گرام میں ما ؤں اور بچوں کی صحت کے حوالے سے یہ اعداد و شمار سامنے آئے، پروگرام میں یہ بھی بتا یا گیا کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ما ئیں اور بچے نا منا سب اور غیر متوا زن غذا کی وجہ سے مو ت کے منہ میں جا تے ہیں یہ ایک تشویشنا ک صورت حا ل ہے نیشنل نیوٹر یشن پرا جیکٹ کے حکام نے اس مو قع پر انکشاف کیا کہ صوبے میں 34فیصد ماؤں اور بچوں کو خون کی کمی کا سامنا ہے اور یہ غیر متوا زن غذا کا نتیجہ ہے اگر اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کیا جا ئے تو ہمارے سامنے پانچ بنیا دی حقا ئق آئیں گے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے روایتی طور طریقوں میں ما ں بننے والی خوا تین کیلئے خوراک کا مخصوص نظام ہو تا تھا مقا می تجربات کے مطا بق اس دوران خواتین کو اچھی غذائیں دی جا تی تھیں اگر وہ لو گ پروٹین اور نشاستہ کے نا موں سے واقف نہیں تھے تا ہم وہ اتنا جانتے تھے کہ اس مرحلے پر گوشت، انڈے، پھل اور سبزیاں بہت ضروری ہیں اگر پورے کنبے کیلئے اس طرح کی غذائیں دستیاب نہ بھی ہو ں پھر بھی خواتین کیلئے متوا زن غذا ؤں کا اہتما م کیا جا تا تھا گھروں میں سلیقہ مندمائیں اس بات کا خا ص خیا ل رکھتی تھیں، دوسری بات یہ ہے کہ روا یتی معا شرے میں با زاری گھی، بازاری مر غی، بازاری انڈے نہیں ہوتے تھے گھروں میں جو کچھ پکتا تھا وہ خا لص غذا پر مشتمل ہو تا تھا ملا وٹ شدہ خوراک اوردو نمبر غذائیں نہیں ہو تی تھیں، تیسری حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ 50بر سوں کے اندر ہمارا گھریلو نظام ٹوٹ چکا ہے سلیقہ مندی ختم ہو گئی ہے روایتی پکوان اب خواب و خیال بن چکے ہیں، چو تھی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے شہری اور دیہی علا قوں میں جدید سائنسی حقا ئق کی روشنی میں افراد خا نہ کی صحت کا خیال رکھنے کا کوئی نیا سسٹم نہیں آیا اگر چہ تعلیم عام ہو گئی ہے ڈاکٹر وں کی تعداد میں بھی روز بروز اضا فہ ہو رہا ہے لیکن ماں بننے والی خواتین کو صحت مند غذا ئیں فراہم کرنے کا خیال کسی کو نہیں آتا بچوں کو صحت مند غذا ئیں دینے کا کوئی دستور نہیں ہے پانچویں حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نقا لی کرنے کی کو شش میں بچوں کو بازار کا غیر معیاری دودھ پلا نے کا رواج عام ہو گیا ہے اور بازاری دودھ کی زیادہ تر پرا ڈکٹ غیر معیا ری ہو تی ہیں۔ یہ پا نچ مو ٹے موٹے حقا ئق ہیں اس مسئلے کا ایک سرا حکومت کے پا س ہے تو دوسرا کنارہ گھر انے کے سربراہ، گھروں کی سلیقہ مند خواتین کے پا س ہے اگر گھروں میں روایتی طور طریقوں کو پھر سے زندہ کیا گیا اور حکومت نے غیر معیاری غذاؤں کے خلا ف اپنے قانون پر عمل کیا تو ماں بچے کی صحت پر مضر اثرات نہیں پڑینگے اور دیکھا جائے تو یہ پوری قوم کے مستقبل کا معاملہ ہے جس میں حد درجہ سنجیدگی اور بھر پور ذمہ داری کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔