تحریک
قدرت نے ہمیں زرخیز زمین اور بے حد متنوع موسموں سے نوازا ہے جو زراعت کیلئے مثالی ماحول فراہم کرتے ہیں۔پاکستان میں اُگنے والے پھل اپنے لذیذ ذائقے اور اعلی معیار کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں‘ پاکستان کھجور، آم اور امرود وغیرہ کی بر آمدات سے کافی زرمبادلہ کماتا ہے۔ مگر چند انتہائی اہمیت کے حامل پھل جیسے ایووکیڈو، چیسٹ نٹ، ہیزل نٹ وغیرہ ابھی تک پاکستان کی صنعتِ باغبانی میں زیادہ اہمیت حاصل نہیں کر سکے حالانکہ پہاڑی علاقے خصوصا پاکستان کے شمالی علاقہ جات ان پھلوں کی پیداوار کے لیے انتہائی سازگار ہیں۔ مری، بالاکوٹ اور ان سے ملحقہ علاقوں میں پچھلے ایک عشرے کے دوران ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کچھ علاقوں کا موسم مرطوب ہوگیا ہے۔ جن میں مری بھی شامل ہے جہاں دورانِ تحقیق ایووکیڈو کی کاشت کے تجربات کیے گئے، جو توقع سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئے۔ اس کے بعد وہاں چیسٹ نٹ، ہیزل نٹ اور دیگر پھلوں کی کاشت کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔
پاکستان میں ایووکیڈو، ہیزل نٹ اور چیسٹ نٹ کی کامیاب کاشت کرنیوالے ماہرین زراعت کے مطابق ایووکیڈو ایک انتہائی مفید پھل ہے،دنیا بھر میں اس کی سب سے زیادہ پیداوار امریکہ، میکسیکو اور برازیل میں ہو رہی ہے جبکہ معتدل موسم والے کئی دیگر ممالک جیسے جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز وغیرہ میں بھی بتدریج ایووکیڈو کی کاشت کا رقبہ بڑھا رہے ہیں۔مغربی ممالک میں ایووکیڈو روزانہ کی غذا خصوصا ناشتے کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس میں کئی اہم معدنیات، پروٹین، وٹامن اور چکنائی پائی جاتی ہے، جس کے باعث ماہر غذائیات اسے ڈائٹ فوڈ میں ضرور شامل کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایووکیڈو کو کاشت کرنے کا آسان ترین طریقہ اس کے بیج ہیں مگر تخمی پودے اچھی نسل کے نہیں ہوتے۔ لہذا ان کی درست افزائش کیلئے پیوندکاری کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بعض سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر اس کے بیج کا چھلکا اتار دیا جائے تو اس کی پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے۔
پاکستان کا وسیع علاقہ خصوصا شمالی علاقہ جات اس کی کاشت کیلئے انتہائی موزوں ہیں، جہاں آب و ہوا مرطوب ہے‘ اگرچہ یہ ایک سخت جان پھل ہے مگر ابتدائی برسوں میں پودوں کو سردی، گرمی اور کورے سے بچانا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مقامی کاشت کار ان پھلوں کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں۔ اگر صرف ترکی کی بات کریں تو گذشتہ برس 32 ممالک کو چیسٹ نٹ بر آمد کر کے ترکی نے تقریبا 43 ملین ڈالر کا زر مبادلہ حاصل کیا ہے‘ مری سمیت دیگر پہاڑی علاقوں میں ہارس نٹ عام اُگتے ہیں۔ اگرچہ یہ کھانے کے لائق نہیں ہوتے مگر مقامی افراد کو علم ہی نہیں ہے کہ جن علاقوں میں ہارس نٹ اُگتے ہیں وہاں چیسٹ نٹ بھی باآسانی کاشت کیا جا سکتا ہے تاہم اس حوالے سے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے‘پاکستان میں ان دنوں نت نئے پھلوں پر تجربات کئے جار ہے ہیں۔ چیسٹ نٹ کی کاشت کا پہلا تجربہ 2007 میں محکم جنگلات کے ایک افسرنے کیا تھا، جنہیں اس کے چند پودے ہالینڈ سے تحفے میں ملے تھے۔ انہوں نے شنکیاری میں واقع زرعی تحقیقاتی مرکز میں ان پودوں کو لگوایا اور چند ہی سال میں ان پودوں پر پھل لگ گئے۔ چیسٹ نٹ ایک انتہائی مقوی خشک میوہ ہے، جس کی پاکستان میں کاشت محدود ہونے کے باعث قیمت ابھی کافی زیادہ ہے۔
اگر زراعت میں نئے رجحانات سے فائدہ اٹھایاجائے اور نت نئے پودے مناسب تحقیق اور منصوبہ بندی کے ساتھ لگائے جائیں کہ کون سا علاقہ کس طرح کے پودوں یا پھلوں، سبزیوں وغیرہ کی کاشت کے لیے موزوں ہے تو اس سے نہ صرف مقامی افراد کی معاشی حالت بہتر ہو گی بلکہ پاکستان ان کی برآمدات سے کئی کروڑ ڈالر زر مبادلہ حاصل کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ کچھ برس قبل بھوٹان میں امریکہ سے آئے ایک سیاح جوڑے نے مقامی کسانوں کو ہیزل نٹ کے کچھ پودے د ئیے اور ساتھ ان کی کاشت کا طریقہ بتایا تھا۔ آج وہاں ہزاروں کسان اس منافع بخش میوے کی کاشت سے وابستہ ہیں اور بھوٹان کی معیشت بھی پہلے سے کافی بہتر ہوئی ہے۔ اگر شجری کاری کے منصوبوں میں زرعی ماہرین اور تحقیقاتی اداروں کو شامل کیا جائے جو مقامی افراد کو اس حوالے سے راہنمائی دیں تو اس کے دور رس نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔