معصوم کلی

فضا میں گولیوں کی تڑتڑ نے ماحول کو ایک دم خوفزدہ کر دیا۔ خدا خیر کرے ہوا کیا ہے۔بالکل دروازے کے پاس ہی یہ کانوں کے پردوں میں سوراخ کر دینے والی یہ گونج ہمیں کھینچ کر باہر لے گئی۔ معلوم ہوا پڑوسی کے ہاں لڑکے کی پیدائش ہوئی ہے۔ دروازے کے پاس ہی اندر لمبی سی ڈیوڑھی میں بچھی ہوئی چارپائی پر ایک لحظہ بیٹھ گیا۔جیسے بہت طویل ریس میں دوڑ تے ہوئے شکست کھا کر سر پکڑا ہوا ہو۔ سوچ میں پڑ گیا۔ پچھلے سال ان کے گھرمیں بیٹی بھی تو پیدا ہوئی تھی اس کی پیدائش کے بارے میں مہینہ بعد وہ بھی قریب کے دکاندار سے معلوم ہواتھا۔ذہن میں سوال کیڑے مکوڑوں کی طرح کلبلانے لگا کہ بیٹی کے پیدا ہونے پر کیوں خوشی نہیں منائی جاتی۔پھر ”خیال آیاتھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا“۔ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح میں اندر گھر کے اندھیروں میں لوٹ آیا۔ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ہاں بیٹیوں کو چاہنے والوں کی کمی ہے۔
ایسے بھی بہت سے ہیں جن کی جان ہی بیٹیوں میں ہے اور انکی خوشحال زندگی کیلئے وہ خود کو تکلیف میں ڈالتے ہیں ان کے پاؤں میں کانٹا تک چبھنے نہیں دیتے  وہ بیٹوں اور بیٹیوں میں امتیاز نہیں کرتے،تاہم بعض لوگوں کے ہاں بیٹی کو کانٹوں اور ببول کاپودا سمجھ لیا گیاہے۔یہ کب تلک ہوتا رہے گا۔ مجھے جہلم کے امین فاروقی کا ایک خوبصورت شعر یاد آرہا ہے ”۔ میں معزز ہوا ہوں بیٹی سے۔مجھ پہ اللہ نے رحمت کی ہے“۔وہ خبر زیادہ پرانی نہیں ہوئی ہے کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک باپ نے اپنی نوزائدہ  بیٹی کو گولیاں مار دی تھیں کیونکہ اس کے ہاں بیٹا نہیں ہوا تھا۔اس کے ہاتھوں پر رعشہ طاری نہ ہوا۔اس کو ندامت کا پشیمانی کا احساس تک نہ ہوا۔بس پستول اٹھایا اور پھول سی نازک بچی کے تنِ ناز ک میں یہ لوہا اتار دیا۔ مہربانی کر کے کسی بے اولاد کو دے دیتا۔
کہیں کسی چوراہے پر رکھ کر چھوڑ آتے۔کہیں کسی خیر خواہی کی تنظیم کسی فلاحی ادارے کے مین گیٹ کے باہر پڑے ہوئے جھولے میں ڈال آتے۔اگر تم کو ضرورت نہیں تو کسی اور کو اس کی اشد ضرورت ہے۔یہ منظر بھی ان آنکھوں نے دیکھاہے۔سات بھائیوں کے باپ کو پریشانی لاحق تھی۔ پوچھا کیا ہوا کاہے کی اُداسی ہے۔اس نے کہا یار بیٹی  کی کمی  ہے۔اب تو وہ قاتل پکڑا جا چکا ہے۔ مگر اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے تو اس میں بہتوں کا بھلا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اس کو او رکسی کی بیٹی سے کاہے کو شفقت ہوگی۔جس کو اپنی بیٹی کا وجود برا لگتا ہو۔ایک اور شخص تھا۔ اس کے ہاں کبھی بیٹی نہیں ہوئی۔اس کے چار بیٹے تھے۔اس بار ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا تھا۔بچی تو دنیا میں آئی۔مگر دنیا کی آب و ہوا کی سانس اس کے نصیب میں نہ تھی۔مگر یہ سب نصیب کی بات ہے۔کسی کو بن مانگے بھی مل جائے  اور کوئی اس کی طلب میں تڑپتا جائے۔