بدلتا عالمی منظر نامہ

ملکی حالات و واقعات میں مد وجزر کی صورتحال ہے اور آنے والے دن کیا ہوتا ہے کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔ایسے میں کوشش یہ ہونی چاہئے کہ معاملات اس موڑ پرنہ پہنچیں جہاں سیاستدانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مکالمے کاسلسلہ ہی موقوف ہو جائے۔اس جملہ معترضہ کے بعد اب کچھ تازہ ترین اہم عالمی اور قومی امور کا ہلکا سا تذکرہ ہو جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ویت نام اور افغانستان کے محاذوں پر شکست کھانے کے بعد امریکہ نے یوکرین کے معاملے میں بھی مات کھائی ہے جس طرح ویت نام اور افغانستان میں پسپائی کے زخم اسے چاٹنے پڑے ہیں بالکل اسی طرح اب وہ یوکرین کے زخم بھی چاٹے گا۔
 پیوٹن دنیا کے نقشے پر ایک مضبوط لیڈر کے طورپر اُبھرا ہے اس سے پہلے غالباً لینن‘ سٹالن اور خروشیف کی شکل میں ماسکو میں تین ایسے لیڈر پیدا ہوئے تھے جن کی جھلک ہمیں پیوٹن میں نظر آئی دراصل پیوٹن ایک عرصہ دراز تک سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کا سرپرست رہا ہے اس سے زیادہ کسی اور روسی کو امریکہ کی چالوں اور سازشوں کا علم نہیں کہ جن کی وجہ سے سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے جس پر پیوٹن جیسے قوم پرست روسیوں کو سخت دکھ تھا اسکے سینے میں امریکہ سے انتظام لینے کی آگ کئی برسوں سے بھڑک رہی تھی قطع نظر اس بات کے کہ وہ ان ریاستوں کو دوبارہ ماسکو کے زیر اثر لانے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پیوٹن اس وقت تک سکھ کا سانس نہیں لے گا کہ جب تک وہ ایک ایک کرکے ان تمام ریاستوں کو ماسکو کے زیر اثر نہیں لے آتا۔
روس کے تمام قوم پرست حلقوں کی اسے اس مشن میں حمایت حاصل ہے۔یہ پیوٹن کی دوراندیشی اور سیاسی بلوغت تھی جو اس نے چین کیساتھ بنا کر رکھی چین  بھی سوویت یونین کی طرح کمیونسٹ ملک ہے لیکن ماضی میں اک عرصہ دراز تک سوویت یونین اور چین میں سردمہری رہی اور اس نفاق کا امریکہ نے پورا سیاسی فائدہ اٹھایا لیکن جس دن سے پیوٹن نے چین کیساتھ اپنے تعلقات دوستانہ بنائے ہیں واشنگٹن کی جیسے ماں مرگئی ہو یوکرین کے تنازعہ میں دنیا نے دیکھ لیا کہ امریکہ کتنے پانی میں ہے اس نے کافی سبکی اٹھائی ہے یہ بات اب طے ہے کہ اس صدی میں اگر ایک طرف چین اور روس کا کمیونسٹ بلاک ہوگا تو دوسری طرف امریکہ کی زیرسرپرستی ویسٹرن بلاک بالکل اسی طرح کہ جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا وارسا اور نیٹو کے ممالک کے بلاکس میں تقسیم ہوگئی تھی۔
وطن عزیز میں یونیورسٹیز اور انڈسٹری کے مابین روابط بہتر بنانے کی ضرورت ہے یونیورسٹیز کو تحقیق پر توجہ دینی چاہئے اس ضمن میں پالیسی اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے کافی کام کیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی سفارشات سے استفادہ کیا جائے اقتصادی پالیسی بناتے وقت ان سفارشات کو مدنظر رکھا جائے ملک کی جواں سال نسل کو مختلف شعبوں میں ہنرمند بنانے کیلئے اسے ووکیشنل ایجوکیشن دینی ہوگی آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے صرف وہی ملک اور قوم دور حاضر کے علمی‘ معاشی اور سائنسی تقاضے پورے کرسکتے ہیں کہ جو سائنس اور ٹیکنالوجی کو انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے بروئے کار لاسکیں۔ آج ہم زندگی کے ہر شعبے میں مغرب سے اسلئے بہت پیچھے رہ گئے ہیں کہ ہم نے ریسرچ کی طرف کماحقہ توجہ نہیں دی ہے۔