ملک میں جاری سیاسی بحران سے بیرونی اقتصادی محاذ پر دباؤ پڑ رہا ہے کیونکہ رواں ماہ کے دوران ایکویٹی‘ ٹریژری بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے اخراج میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران اب تک تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کے مجموعی اخراج میں سے صرف مارچ کے دوران ہی چالیس کروڑ ڈالر بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں۔ اِس صورتحال سے ”پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز“ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ مارچ کے پہلے چودہ دنوں کے دوران پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کا اخراج دس کروڑ بیس لاکھ ڈالرز رہا جو اگلے دس دنوں میں ایک سو سینتالیس فیصد اضافے سے پچیس کروڑ پندرہ لاکھ ڈالر تک جا پہنچا۔ مارچ دوہزاربیس میں بھی اسی طرح کے بڑے پیمانے پر ڈالروں کی بیرون ملک منتقلی (اخراج) کا مشاہدہ کیا گیا جب پاکستان میں کووڈ وبا کا پہلا کیس سامنے آیا تھا اور اِس کے ایک ماہ بعد تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری چند دنوں میں دیکھتے ہی دیکھتے ملک سے چلی گئی۔
اس وقت زیادہ پیداوار کے باوجود بڑی غیر ملکی سرمایہ کاری کا اخراج پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کے ذریعے سے ہے۔اسی طرح تین ماہ کے ٹریژری بلوں پر منافع بڑھ کر گیارہ اعشاریہ ننانوے فیصد‘ چھ ماہ کیلئے ساڑھے بارہ فیصد اور بارہ ماہ کیلئے بارہ اعشاریہ سات فیصد ہوگیا ہے۔ ضرب صرافہ (کرنسی مارکیٹ) ڈیلروں کا خیال ہے کہ ٹریژری بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز پر منافع غیرملکی سرمایہ کاروں کیلئے انتہائی پرکشش ہے کیونکہ حکومتی ضمانت یافتہ اور خطرے سے پاک بانڈز پر اتنی زیادہ شرح منافع پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں دستیاب نہیں ہے۔ رواں مالی سال کے دوران اب تک پاکستان انویسٹمنٹ بانڈ کی کل آمدن دس کروڑ ترتالیس لاکھ ڈالرز تھی‘ جو رواں ماہ (مارچ دوہزاربائیس میں اب تک) ڈیڑھ لاکھ ڈالرز ہے۔ رواں ماہ ٹریژری بلز میں آمد صفر ہے لیکن اس سے نکلنے والی رقم دس کروڑ ڈالرز سے زیادہ ہے جو ملکی بانڈز سے تیزی سے کم ہوتی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری کو ظاہر کرتی ہے۔
مارچ کے دوران پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز اور ٹریژری بلز سے کل آمدنی ڈیڑھ لاکھ ڈالرز رہی جبکہ دو ملکی بانڈز میں سرمایہ کاری واپس ہونے سے پینتیس کروڑ بیس لاکھ ڈالرز جا چکے ہیں۔ اگر ایکویٹی سے اخراج کو شمار کیا جائے تو غیر ملکی سرمایہ کاری کا کل اخراج چالیس کروڑ ساڑھے تیئس لاکھ ڈالرز بنتا ہے۔ اِس اخراج کی بظاہر کوئی معاشی وجہ نہیں کیونکہ حکومت کو معاشی محاذ پر کسی سنگین پریشانی کا سامنا نہیں ہے جو درحقیقت زیادہ برآمدات‘ ترسیلات زر میں اضافے اور سٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے معقول ذخائر کی وجہ سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری کے تیزی سے اخراج کی ایک وجہ یا نتیجہ ملک میں سیاسی بحران ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو آنے والے دنوں میں مزید مشکلات کاسا منا ہوسکتا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ حکومت اور مرکزی بینک نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے دو سال قبل ’سرمایہ کاری بانڈز‘ کا آغاز کیا تھا جس کا ایک مقصد تو پاکستان کی جانب سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنا تھا اور دوسرا زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانا بھی تھا ایسے میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات اور ایک دوسرے کی مخالفت برائے مخالفت کو بالائے طاق رکھیں تو اِس سے ملک اور اُن کو بھی طویل المدتی فائدہ ہوگا۔گزشتہ چند ہفتوں سے سیاسی اجتماعات ریلیوں اور لانگ مارچ نے عملاً پورے ملک کا کاروبار زندگی ٹھپ کر رکھا ہے۔ ان جارحانہ سیاسی سرگرمیوں سے ٹریفک میں بھی طویل تعطل پیدا ہو رہا ہے۔
نجی فضائی کمپنیوں نے اپنی پروازیں بھی معطل کر دی ہیں اور بازاروں‘ مارکیٹوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس طرح بلیم گیم اور پوائنٹ سکورنگ کی اس سیاست نے انسانی زندگی جامد کر دی ہے اور سیاسی محاذآرائی اور کشیدگی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے جس کے سٹاک مارکیٹ پر بھی انتہائی بُرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ قومی سیاسی قائدین کو بہرصورت ہوش و خرد کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے اور سیاسی محاذآرائی اس انتہا تک نہیں پہنچانی چاہئے کہ اِس کی وجہ سے عوام سیاست‘ پارلیمان اور مجموعی طور پر جمہوری نظام ہی سے متنفر ہو جائیں۔