شادیوں میں کھانا

ہمارے ہاں شادی بیاہوں میں کھانا بہت ضائع ہوتا ہے۔ایک خوانچہ لکڑی کا ہوتا تھا۔ اب اس کی جگہ لوہے کی چادر کا قدرے بڑا خوان نمودار ہو گیا ہے۔جس میں کھانے والوں کو زیادہ سہولت میسر ہے۔پھر چار کے بجائے بعض بڑے خوانچے چھ آدمیوں کیلئے ہوتے ہیں۔مگر لکڑی والے خوانچہ کیلئے جو کرسیاں میزیں ترتیب دی جاتی ہیں۔وہاں کھانے کی تقسیم سے پہلے ہی تین آدمی بیٹھ جاتے ہیں۔ چوتھی کرسی پر ان تینوں حضرات میں سے ایک نے اپنا بچہ ساتھ بٹھا دیا ہوتا ہے۔اب وہ بچہ تو چڑیاکی مانند خوراک کھائے گا۔باقی کا کہاں جائے گا۔خوانچوں کی تقسیم کے وقت خوانچے دوڑانے والوں کی نفری بھی چپ سادھ لیتی ہے۔معلوم نہیں کہ یہ اچھا عمل ہے کہ نا درست کام ہے۔مگر یہ کونسا رویہ ہے کہ چار کرسیوں میں سے دو پر تو ثابت آدمی ہوں اور باقی دو پر ایک بچے کے بجائے دو بچے بیٹھے ہوں۔خیر اس موقع پر کہ سخاوت کا ایک دریا بہہ رہاہوتا ہے۔ لڑکے یا لڑکی والوں کو اس طرح کھانے کے ضائع ہونے پر چنداں افسوس نہیں ہوتا۔کیونکہ یہ موقع بار بار تو آنے والا نہیں ہوتا۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے۔
بعض لوگ وہ میز تلاش کرتے ہیں جہاں میرے جیسے کمزور بندے بیٹھے ہوں۔جن کے بارے میں اندازہ ہو کہ یہ لوگ کھانا کم کھائیں گے۔اس کا تو مطلب یہی ہوا کہ باقی کا کھانا ہم چٹ کریں گے۔مگر یہ ہے کہ بعض لوگ تو انتہائی شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔جب آواز دی جاتی ہے کہ کھانے کیلئے آئیں تو وہ دوڑ کر نہیں جاتے۔ وہ  تہذیب کو سامنے رکھ کر پُر وقار انداز سے آگے بڑھتے ہیں۔ پھر ایسے موقع پر جلدی کرنے اور دوڑنے بھاگنے ایک دوسرے سے آگے ہونے کی ضرورت ہی کیاہے۔اکثر اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ پیچھے کہیں آنے والوں کو بھی نشست مل جاتی ہے۔وہ بھی اپنے حصے کا کھاجاکھا لیتے ہیں۔لیکن بعض پیارو ں کو جلدی ہوتی ہے۔انھوں نے کہیں جانا ہوتا ہے۔سو وہ انتظار کے موڈ میں نہیں ہوتے۔اس لئے وہ جلدی کھانا کھا کر فراغت حاصل کرناچاہتے ہیں۔ ہمارے پشاور کی پشوری شادیوں میں یہی کچھ ہوتاہے۔شہر سے باہر گاؤں وغیرہ میں رہنے والے توبہت تاخیر بھی ہوئی تو رات نو بجے تک گھر واپس پہنچ جاتے ہیں۔پھر دس بجے رات یا بہت ہوا تو آدھ گھنٹہ لیٹ ہوئے سو جاتے ہیں۔مگر پشاور کی شادیاں تو رات نو بجے سے پہلے شروع ہی نہیں ہوتیں۔کڑاکے کی سردی کیوں نہ پڑ رہی ہو۔جب شادی والے گھر کے لوگ شادی ہال میں نوبجے آئیں گے تو مہمان کہا ں جائیں گے۔کھانا ضائع کرنا تو ہمارا خاصا ہے۔ایک خوانچے میں اچھا بھلا کھانا بچ جاتا ہے۔
کبھی تو اراکینِ خوانچہ چاولوں پرجھک جاتے ہیں۔کہیں کسی خوانچہ پر مہمانانِ گرامی چاول کے ایک دو نوالے وہ بھی رسمی طور پر نوش کریں گے اور پھر اس کے بعد چاولوں کی بھری پُری غوری کے اوپر نرگسی کوفتوں کا پیالہ اور ساتھ میں گوشت کا پیالہ رکھ کر کھانا شروع کر دیں گے۔ ماناکہ کھانا ضائع تو نہیں جاتا ہوگا۔ کیونکہ مہانوں سے بچ گیا تو آخر کسی نہ کسی کے نصیب میں تو ہوگا۔ہاں بعض ہوٹلوں میں بچھا کچھا کھانا کوڑے کے ڈھیر پر گرا دیا جاتا ہے۔کیونکہ وہا ں دور دور تک شہری آبادی نہیں ہوتی۔کھانے کا زیاں اس لئے درست نہیں کہ یہ ناشکری ہے اور بہترین کھاجے کو فالتو قرار دے کر اس کو ضائع کرنا ناشکری ہے۔یہ احساس ضروری ہے کہ ایک طرف ڈھیر سارا کھانا ضائع کیا جاتا ہے تو دوسری طرف ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اچھے اور معیاری کھانے کو تو چھوڑیں معمولی غذا کو بھی ترستے ہیں اور ان کے لئے بھوک ایک طرح سے زندگی کا حصہ بن گئی ہے۔ اصل میں اس کا احساس جو کھانا تقسیم کر تے ہیں ان کو ہی نہیں کرنا بلکہ انھیں بھی اس کا ادراک کرنا ہے جو مہمان کے روپ میں ہیں۔کچھ رسم ہی ایسی چل نکلی ہے کہ خوانچہ کے نام پر ہمارے ہاں کھانے کا بہت ضیاع ہوتا ہے۔
پھر اس موقع پر بعض شریف دوست خوانچے پر اپنے اس یار کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں جو زیادہ بے باک ہوتا ہے۔وہ شرفاء اس بولڈ دوست کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلائیں گے۔ پھر اس بے باک دوست کو اس پر فخر ہوتا ہے کہ میرے دوست مجھ پر کتنا اعتبار کرتے ہیں۔چپکے سے اس دوست کے کان میں کہہ دیں گے یار کوفتے اور منگواؤ۔ پھر وہ دوست اونچی آواز میں دوڑتی بھاگتی نفری کو پکارے گا ذرا کوفتہ دینا یار۔پھر اس یار کے بارے میں خود شادی کے گھر والوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ بندہ ٹھیک نہیں۔اگر انکار کیاتو رنگ میں بھنگ ڈال دے گا۔جو مانگے وہ دینا چاہئے۔اس طرح ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ کھانے کی اشیاء کو اپنی میز پر سجائے اور اس کا احساس کئے بغیر یہ سب کچھ ہوتا ہے کہ بعد میں یہ کھانا ضائع ہو گااور ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے تھا۔