دیرآید درست آید

جب بھی پاکستان پر کوئی اُفتاد آئی ہے تو ہم نے چین کو اپنے ساتھ کھڑا پایا ہے1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ایوب خان نے اس وقت کے ائرچیف ائرمارشل اصغر خان کو چین بھیجوایا۔اصغر خان  اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب میں نے اس وقت کے چین کے وزیراعظم سے ہوائی جہازوں کی فراہمی کی درخواست کی تو انہوں نے اصغر خان سے کہا کہ ہمارے تمام لڑاکا ہوائی جہاز آپ کی ڈسپوزل پر ہیں۔یہ واقعہ ہمیں یہ خبر پڑھ کر یادآیا کہ چین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کو ڈھائی ارب ڈالرز کا تجارتی قرضہ دے گا جو پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات کو کافی حد تک کم کرے گا۔قرضہ لینا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی بھلا وہ آئی ایم ایف سے لیا جائے یا کسی اور ملک سے لیکن آج کے سیاسی حالات میں جب امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کے خلاف گینگ اپ ہوگئے ہیں اور ہمیں معاشی طور پر مارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ محض اس وجہ سے کہ ہم چین اور روس کے اتنے نزدیک کیوں ہوگئے ہیں تو اس صورت حال میں چین اور روس دونوں کو پاکستان کو معاشی طورپر بیل آؤٹ کرنا بڑا ضروری ہے اور امید ہے کہ ماسکو اور بیجنگ دونوں اس مشکل گھڑی میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔
اس وقت افغانستان اور کئی اہم ایشوز پرپاکستان اور روس میں جو قربتیں بڑھی ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں ہمارے لئے اب روس کے ساتھ قریبی تعلق رکھنا اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے برابر ہے۔ اس بات میں دو آراء تو ہو ہی نہیں سکتیں کہ امریکہ نے کبھی ہمارے مفادات کا خیال نہیں رکھا، ہمہ وقت اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہمارے ساتھ تعلقات رکھے اور جب بھی اپنے مفادات پورے کئے تو ہمیں نظر انداز کیا ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے امریکہ کے ساتھ تعلقات نے ہمیں فائدے کی بجائے نقصان پہنچایا ہے موجودہ حکومت کی موجودہ خارجہ پالیسی اس ملک کے عوام کی اُمنگوں کے جذبات کے عین مطابق ہے دانشمندی کا بھی یہ تقاضا ہے کہ اب ہم امریکہ کی قربت سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ نے  ہر ملک میں اپنے لئے ایک مضبوط لابی بنا رکھی ہے کہ جو اس ملک کے کسی حکمران کو بھی امریکہ کے چنگل سے نکلنے کی کوشش میں کامیاب ہونے نہیں دیتی اب جبکہ موجودہ حکومت نے بعدازخرابی بسیار خارجہ پالیسی کو حقیقت پسندانہ بنیادوں پر استوار کرنا شروع کردیاہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عمل کو  مزید تقویت مہیا کی جاتی رہے ویسے بھی یہ کہاں کی دانشمندی تھی کہ سات سمندر پار موجود ممالک کی خوشنودی کیلئے  اپنے خطے میں موجود طاقتور ممالک سے مفت میں دشمنی مول لی جائے‘ دیرآیددرست آید اب جبکہ ہم صحیح راہ پر چل پڑے ہیں تو یہ سفر ہم کو جاری رکھنا ہوگا۔حکومتوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے تاہم ملکی مفادات کے تحفظ کی پالیسی میں تسلسل رکھنا ضروری ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا مستقبل اب خطے کے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے سے وابستہ ہے۔