یوکرین پر روس کے حملے اور اس پر مغربی ممالک اور امریکہ کے رد عمل نے جو نیا ماحول تشکیل دیا ہے اسے کئی حوالوں سے نقصان دہ قرار دیا سکتا ہے تاہم اس خرابی میں بھی ایک صورت اچھائی کی نکل آنے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور وہ ہے منصفافہ ورلڈ آرڈر کا ظہور پذیر ہونا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نئے ورلڈ آرڈر میں چین کا کردار اہم ہے اور وہ کسی بھی ملک کے معاشی اور نظریاتی استحصال کی بجائے معاشی مضبوطی اور نظریات کا احترام کرنے کے اصول پر کاربند ہے۔دوسرے ممالک کی سالمیت کا تحفظ کرنے کے اصولوں پر اگر کوئی ورلڈ آرڈر سامنے آئے تو بلا شبہ اسے موجودہ حالات میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔امریکہ اور مغربی ممالک نے جس نظام کو عالمی سطح پر پذیرائی بخشی ہے اور اس کا تحفظ کر رہے ہیں وہ ممالک پر معاشی دباؤ ڈالنے کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے ممالک کی پالیسیوں پرنظر انداز ہونا ہے۔اب تک یورپ اور امریکہ نے چھوٹے ممالک کو پابندیوں کاشکار کیا اور ان کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبو رکیا تاہم اب اس نے روس پرپابندیاں لگائیں جو وسائل سے مالامال ملک ہے اور جو معاشی طور پر بھی ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس وقت بھی روس پٹرول برآمد کرنے میں مصروف ہے اور بہت سے ممالک اسے خرید رہے ہیں۔ خود مغربی ممالک روس سے گیس اور تیل کی درآمد کو بند کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
روس پر پابندیوں نے دنیا کو تقسیم کردیا ہے کہ وہ امریکہ اور مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے روس سے تیل درآمد کرنا چھوڑ دیں یا اپنے مفادات کاتحفظ کرتے ہوئے اسے جاری رکھیں اور حیر ت انگیز طور پر زیادہ تر ممالک نے دوسرے آپشن کو قبول کیا ہے۔ جو ایک بڑی تبدیلی اور ایک نئے نظام کا پیش خیمہ ہے۔ حال ہی میں روس اور چین کے درمیان جو قربتیں بڑھی ہیں اور جس طرح وہ نئی پالیسیوں کی تشکیل میں مصروف ہیں وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ سوئفٹ کا متبادل بنانے کیلئے جہاں روس اور چین میں کام ہورہاہے وہاں ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کرنے کیلئے بھی منصوبہ بندی جاری ہے۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ روس اور چین نئے عالمی معاشی نظام کی بنیادیں ڈالنے میں مصروف ہیں۔ یوکرین میں ماسکو کی فوجی مداخلت کے بعد سے پہلی مرتبہ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف اہم اتحادی ملک چین کے اولین دورے پر ہیں۔ چین نے یوکرین پر روسی فوجی حملے کی اب تک کوئی مذمت نہیں کی۔ چین کی طرف سے روس کی سفارتی تائید و حمایت ابھی تک جاری ہے۔
اس تناظر میں روسی وزیر خارجہ لاوروف نے اپنے دورہ چین کے دوران کہا کہ عالمی سطح پر اُبھرتے ہوئے ایک منصفانہ ورلڈ آرڈر کے حصے کے طور پر چینی کردار قابل تعریف ہے۔ لاوروف افغانستان کے مستقبل سے متعلق بین الاقوامی ملاقاتوں اور علاقائی مشاورت کیلئے ہونے والے اجلاسوں میں شرکت کیلئے چین گئے ہیں۔افغانستان کے مسئلے پر روس اور چین کا موقف اس وقت یکساں ہے۔ دوسری طرف قوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد کے رابطہ دفتر نے افغانستان کیلئے تقریباً ساڑھے چار بلین ڈالر کی ریکارڈ مالی مدد کی اپیل کی ہے۔ اس اپیل کی جرمنی، برطانیہ اور قطر کی طرف سے بھرپور حمایت کی جا رہی ہے۔ یہ عالمی ادارے کے اس دفتر کی طرف سے کسی ایک ملک کی مدد کیلئے آج تک کی جانے والی سب سے بڑی مالی اپیل ہے۔ اس اپیل کے بعد بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کی مالی مدد کے اعلانات شرو ع ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد کیلئے رابطہ دفتر کے سربراہ مارٹن گریفِتھس نے کہا ہے کہ یوکرین کا مسئلہ بھی انتہائی اہم ہے لیکن افغانستان کو بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔