سری لنکا میں معاشی و سیاسی بحران

1948ء میں اپنے قیام کے بعد پہلی مرتبہ سری لنکا ایک سنگین معاشی بحران کا شکار ہوگیا ہے۔آسمان کو چھوتے ہوئے افراط زر، حکومت کی کمزور مالی پوزیشن، ٹیکس کٹوتیوں اور کورونا وبا، جو سیاحت اور غیر ملکی ترسیلات زر کو بری طرح نقصان پہنچا چکا ہے، اس کے واجب الادا ضخیم قرضوں اور یوکرین جنگ نے سری لنکاکی معیشت کو پچھلے کئی مہینوں میں تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے۔ پچھلے دنوں تین بزرگ افراد شدید گرمی میں ایندھن کیلئے لگی لمبی قطار میں مرگئے تھے۔سری لنکا حکومت کے پاس تیل، خوراک، دوائیوں اور دیگر ضروری درآمدات کیلئے کافی زرمبادلہ نہیں ہے۔ اس کے پاس موجود زرمبادلہ ذخائر، جو جنوری 2020 سے ستر فیصد کم ہوکر پچھلے مہینے سوا دو ارب ڈالر رہ گئے، صرف ایک مہینے کی درآمدات کیلئے کافی ہیں جبکہ اسے اس سال تقریباً سات ارب ڈالر کے قرضے ادا کرنے ہیں۔ ایک ڈالر 280 سری لنکن روپے سے زیادہ کا ہوگیا ہے۔ خزانے میں پیٹرول خریدنے کی رقم نہیں ہے، تیل سے بجلی کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے اور اسی وجہ سے ملک کے متعدد علاقے بجلی سے محروم ہیں۔ چنانچہ ملک میں عام استعمال کی چیزیں یا کمیاب ہوگئی ہیں یا ان کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوگئی ہیں، جنوری میں افراط زر پچیس فیصد تک چلاگیا تھا۔
 بجلی کی لوڈشیڈنگ بیس گھنٹے ہو رہی ہے اور ہسپتالوں میں دوائیاں نہیں ہیں۔ ایندھن کی کمی کے سبب پٹرول پمپس پر طویل قطاریں نظر آرہی ہیں اور کاغذ کی کمیابی کے باعث اخبارت کی اشاعت محدود اور سکول امتحان ملتوی کر دئیے گئے ہیں۔ ڈالرز کی کمی کے پیش نظر اور اخرجات کم کرنے کیلئے پچھلے سال سری لنکا نے نائیجیریا، جرمنی اور قبرص میں اپنے سفارتی مشن بند کیے تھے اور اب عراق اور ناروے میں اپنا سفارت خانہ اور آسٹریلیا میں قونصل خانہ بند کردیا ہے۔عوام درپیش مشکلات کے نتیجے میں حکومت سے بدظن ہیں اور صدر گوتابایا راجاپکشے، جو 2019 میں تیز معاشی ترقی کے وعدے پر برسر اقتدار آئے تھے اور مخالفین سے سختی کیلئے مشہور ہیں، کے خلاف احتجاج بڑھ رہا ہے اور حزب اختلاف بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاکر تحریک برپا کرنے کی متمنی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں اور صدارتی محل کے قریب احتجاج کے بعد صدر راجاپکشے نے موجودہ حالات میں عوام سے بجلی اور خوراک کے استعمال میں کفایت شعاری اور قربانی سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔
سری لنکا کی بارہ فیصد معیشت کا دار و مدار سیاحت پر ہے مگر کورونا وبا کے تباہ کن اثرات اور مخدوش حالات کی وجہ سے اس سے بھی آمدنی کم ہوگئی۔کورونا وبا میں کساد بازاری، کم ترسیلات زر اور ٹیکس کٹوتیوں کی وجہ کم ٹیکس محصولات کی وجہ سے سری لنکا معیشت کی شرح نمو 2021 میں صرف 3.7 فیصد رہی اور سری لنکا کو مزید قرضے لینے پڑے اور سری لنکا کا بیرونی قرضہ، جو 2019 میں اس کی خام قومی پیداوار کا چورانوے فیصد تھا، 2021 میں ایک سو انیس فیصد ہوگیا۔ واضح رہے سری لنکا کا کل بیرونی قرضہ گیارہ ارب ڈالر ہے۔صدر راجاپکشے حکومت نے کسانوں کو قدرتی کھاد استعمال کرنے کا کہا اور کھاد کی درآمدات کم کردیں جس سے ملک میں اس سال کاشت کے موسم میں مصنوعی کھاد کی قلت پیدا ہوگئی۔ اس سے ملک میں سب سے بڑی خوراک چاول کی پیداوار میں بہت کمی ہوئی اور افراط زر میں اضافہ ہوگیا۔اگرچہ مہنگائی میں اضافہ یوکرین کے تنازع سے پہلے بھی جاری تھا مگر یوکرین تنازعے کے بعد ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے صورتحال ابتر ہوگئی ہے۔2009 میں جب سری لنکا میں طویل خانہ جنگی ختم ہوئی تو اس کی سیاحت پر مبنی معیشت ترقی کرنے لگی اور ملک میں عوام کی حالت بہتر ہوتی گئی۔ اب مگر بوجوہ ملکی معیشت غیر ملکی امداد اور قرضوں پر منحصر ہے اور اسے سنگین اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ 
سری لنکا کو اس سال ساڑھے چار ارب ڈالر سرکاری بیرونی قرضہ اور ڈھائی ارب ڈالر سرکاری اور نجی اداروں کے بیرونی قرضے واپس کرنے ہیں۔ اس سال اسے ضروری درآمدات کیلئے تقریبا بیس ارب ڈالر درکا ہوں گے۔چین نے سری لنکا میں  ایک ساحلی شہر، بندر گاہ، ہوائی اڈہ اور سڑکیں بنانے پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے تاہم ان سے سری لنکا پر چینی قرضے تو بڑھ گئے لیکن اس سے منافع نہیں ہو رہا تھا۔سری لنکا نے چین، آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے مزید قرضوں کے حصول کیلئے رابطہ کیا ہے۔ اس نے چین سے ڈھائی ارب ڈالر قرضے کی درخواست کی ہے۔ چین نے نئے قرضے دینے اور پرانے قرضوں کی ادائیگی موخر کرنے کی ہامی بھری ہے  آئی ایم ایف کے مطابق سری لنکا کو  توازنِ ادائیگی اور بڑھتے ہوئے ریاستی قرضوں کا سامنا ہے اور اسے اپنے قرضوں کو سہل بنانے کیلئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔ واضح رہے آئی ایم ایف نے اب تک ماضی میں سری لنکا کو چھ مالیاتی پیکجز دئیے ہوئے ہیں۔