پتا نہیں یہ لطیفہ ہے یا کوئی سنجیدہ بات ہے۔کہتے ہیں ہزاروں سال پہلے یونان کے مفکر افلا طون نے کہا کہ جب بچہ کھیلنے کودنے کے قابل ہو جائے تو اس کو ایک کمرے میں بٹھا دیا جائے۔ بعد ازاں بچے کے آگے دنیا جہان کی چیزیں پھیلا دیں۔ پھر یہ بات نوٹ کریں کہ بچہ ان تمام چیزوں میں سے کس چیز کے ساتھ زیادہ دل چسپی کا اظہارِ کرتا ہے۔وہ ہتھوڑی اٹھاتا ہے یا گرمالا اٹھاتا ہے۔پھر وہاں کاغذ ہوں اور قلم ہو۔اس طرح کی نت نئی اور قسم قسم کی چیزیں پڑی ہوں۔اگر وہ ہتھوڑی اٹھا لیتا ہے اور پھر اس کے ساتھ کھیلنا شروع کردیتا ہے۔اس کا مطلب یہ کہ ا س ہتھوڑی سے وابستہ ہنر میں جائیگا۔ پھر اگروہ پیچ کس اور پلاس اٹھاتا ہے تو اس کو آئندہ کی دنیامیں مستری بنائیں۔ اگر تو قلم ہاتھ میں لیتا ہے تو اسے پڑھائی کی طرف توجہ دلانا چاہئے۔
ماضی میں یونان میں اتنے سمجھ دا رلوگ تھے جو بچوں کے مستقبل کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ گھر میں بچہ ہوگا تو عالم یہ ہے کہ اس کو سکول میں داخل کروا کر بے فکر ہو جائیں گے۔سب کچھ سکول کے استادوں پر چھوڑ دیں گے۔ کہیں گے ہم نے تو سکول میں داخل کر دیا اب اسے انسان بنا نا آپ کا کام ہے۔ مگر بچہ جب تلک اپنے گھرسے ایک اچھا ماحول حاصل کر کے نہیں آتا۔وہ دنیا کے کسی کام میں ماہر نہیں ہو سکتا اور کامیاب نہیں ٹھہرتا۔ہمارے ہاں یہی عالم ہے۔ یہا ں ہر دوسرا آدمی اپنے شعبہ میں مس فٹ ہے۔یعنی وہ اگر رزق روزگا ر کیلئے جو میدان منتخب کرنا چاہتا ہے اس کو نہیں مل پاتا۔ وہ کسی اور شعبہ میں کا م کررہاہوتاہے۔اگر کوئی انجینئر بن گیا تو ہاتھ میں ڈگری لے کر گھوم رہا ہے۔پہلے تو اس کو نوکری ہی کہاں ملتی ہے۔مراد یہ کہ وہ ملازمت جو اس کے مطلب کی ہو اس کی فیلڈ کی ہو۔جس میں اس کا دل لگے۔ یہا ں تو بہت کم ہیں جو اپنے اپنے شعبہ سے جیسا کہ حق ہے وابستہ ہیں۔جن کے دل کو اطمینان حاصل ہے۔جس کی وجہ سے وہ اپنے کام کو ٹھیک طریقے سے انجام دینے کے اہل ہیں۔وہ ایسے اداروں میں کام کر رہے ہیں جہاں ان کی صلاحیتو ں سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ اس لئے وہ اہل ہو کربھی نااہل ہیں۔
ان کی صلاحیتیں الگ ضائع ہو رہی ہیں۔ پھر ا ن کو روٹی پانی بھی ان کی محنت کے مطابق نہیں مل رہا۔وہ اندر اندر اداس رہتے ہیں۔خواہ جو میدان عمل ہو یہاں اسی طرح کے لو گ ہیں۔ جو کام تو کر رہے ہیں مگر جس کام کے کرنے کو ان کااپناجی چاہتا ہے اس طرح نہیں کر پا رہے۔کسی نے اگر اپنے شعبہ میں کمال دکھایا ہے تو بس دکھانے کی حد تک ہے۔وہ مگر کسی او رشعبہ سے وابستہ ہیں۔روزگار کی خاطر بہت سے لوگ ان ملازمتوں میں جُتے ہوئے ہیں جن کو وہ انجام نہیں دینا چاہتے۔پھر حیرت کامقام یہ ہے کہ یہی بڑے پانیوں کے جہاز چھوٹے دریا میں تیرنا شروع کر دیتے ہیں۔یہی ڈاکٹر انجینئر پروفیسر حضرات سی ایس ایس کر کے ان نوکریوں میں آ جاتے ہیں۔ جو ان کیلئے بنی نہیں ہوتیں۔ملک و قوم کا ان پرجتنا خرچہ آیاوہ سب ضائع ہو جاتا ہے۔حالانکہ مقابلے کے امتحان کے لئے بنیادی تعلیم بی اے سمجھی جاتی ہے۔
اگر آپ اس فیلڈ میں آنا چاہتے تھے توآپ نے اپنا قیمتی وقت اور ماں باپ کا پیسہ ضائع کیوں کیا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی میدان کے ماہرین کی کمی ہے۔وہ اپنی فیلڈ چھوڑ کر افسرانہ وردیاں پہن لیتے ہیں۔حالانکہ ہماری قوم کو افسرو ں کی نہیں سائنسدانوں کی ضرور ت ہے۔ہمارے ہاں اپنی فیلڈ کے لوگ اپنے اپنے میدانو ں میں جاکر خدمات انجام دیں تو کیابھلا ہو۔زیادہ تر صاحبان اپنے میدان میں نہیں جا پاتے۔اس لئے وہا ں مس فٹ ہو جاتے ہیں۔یہاں ”رائٹ مین تو دی رائٹ جاب“ والی کوئی اچھی بات نہیں۔ جن کو کالج سکول یونیورسٹی میں ٹیچر ہونا چاہئے وہ نوکری نہ ملنے کی وجہ سے جا کر کسی ادارے میں میز کرسی سنبھال لیتے ہیں۔ وہ قوم جو ان کی تعلیم او رسمجھ بوجھ سے فائدہ مند ہونا چاہتی ہے وہ محروم رہ جاتی ہے۔اس کی وجہ ہمارے ہاں سسٹم کی کمزوری ہے۔ہمارے سسٹم کو کسی شکل میں آخری او رحتمی خوبصورتی حاصل نہیں۔بس وقت گذاری ہے۔نوکری کرنا ہے پینشن لے کر گھرداری کرنا ہے۔ ایک اچھی قوم کی تخلیق روز بروز گراں سے گراں تر ہوئی جاتی ہے۔