متحرک وزرائے خارجہ

یوں تو مختلف ادوار میں دنیا کے کئی ممالک میں ایسے وزرائے خارجہ گزرے ہیں جو دنیا کے میدان سیاست پر چھائے رہے ہیں لیکن ان میں چند ایسے تھے کہ جن کا بطور وزیر خارجہ وزارت کا دورانیہ کافی طولانی تھا اور سفارتی حلقوں میں ان کی شہرت کا ڈنکا بجتا تھا مثلاً امریکہ کے وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈلس‘ سوویت یونین کے وزیر خارجہ گرومیکو‘ عراق کے وزیر خارجہ طارق عزیز‘بھارت کے وزیر خارجہ سوارن سنگھ‘پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور امریکہ کے ہی ہینری کسنجر کہ جنہوں نے عالمی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں کسی بھی ملک میں وزیراعظم کے بعد ایوان اقتدار میں وزیر خارجہ کا مقام کلیدی ہوتا ہے۔امریکہ کے دو وزرائے خارجہ یعنی جان ماسٹر ڈلس اور ہینری کسنجر دو ایسے وزرائے خارجہ تھے کہ جنہوں نے اپنے اپنے وقتوں میں امریکہ کی خارجہ پالیسی متعین کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔اس طرح سوویت یونین کے وزیر خارجہ گرومیکو سوویت یونین کی خارجہ پالیسی کے ایک لمبے عرصے تک روح رواں تھے اور سوویت یونین کیPolitburoپولٹ ہوریو میں ان کا ایک کلیدی کردار تھا اور دنیا کے مختلف ممالک کے حکمران ان کی بات کو توجہ سے سنتے تھے اور اس پر فوری طور پر عمل پیرا بھی ہوتے یہاں پر اگر ہم پاکستان کے ایک سابق وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب کا ذکر نہ کریں تو زیادتی ہوگی وہ نہایت ہی پڑھے لکھے انسان تھے اور دنیا کی کئی زبانوں پر ان کو عبور بھی حاصل تھا۔ اقوام عالم میں اس ملک کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ جس کا وزیر خارجہ معتدل شخصیت کا مالک ہو وہ جچے تلے انداز میں عالمی سیاسی حالات پر تبصرہ کرتا ہو اور جس کی تاریخ پر گہری نظر ہو وزیرخارجہ کا قلمدان کچھ ایسی نوعیت کا ہوتا ہے کہ تجربہ بتاتا ہے کہ اکثر ممالک کے وزرائے خارجہ اندرون ملک اور بیرون ملک میں اپنے اپنے ملک کے وزیراعظم سے زیادہ پاپولر اور جانے پہنچانے ہو جاتے ہیں باالفاظ دیگر وہ وزرائے اعظم پر چھا جاتے ہیں بعض مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم نے لمبے عرصے تک وزارت خارجہ کا قلمدان خالی رکھا اور خارجہ امور کو وہ خود دیکھتے رہے لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ وزیر خارجہ ایک فل ٹائم جاب ہے جو چوبیس گھنٹے توجہ مانگتا ہے اور وزیراعظم کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ امور خارجہ کی طرف بھی کماحقہ دھیان دے سکے۔