معاشی اخراجات 

پاکستان میں سرمایہ کاری کا مقبول ترین رحجان جائیداد کی خریدوفروخت ہے اور چونکہ یہ شعبہ کافی پُرکشش منافع دینے کا باعث ہے اِس لئے سرمایہ داروں کے علاوہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بھی اپنی جمع پونجی اور ماہانہ کمائی کا بڑا حصہ قطعات اراضی خریدنے‘ اپارٹمنٹس کی بکنگ اور رہائش گاہیں کرائے پر لینے میں بھاری رقم سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اکثر اِس سرمایہ کاری سے خسارے کے خطرات سے بھی آگاہ نہیں ہوتے۔ جائیداد کی خریدوفروخت کے حوالے سے نظم و ضبط اور نگران اداروں کی کارکردگی خاطرخواہ مؤثر نہیں ہے۔ زمین کی تقسیم‘ استعمال‘ انتقالات یا رجسٹریشن کے مراحل میں بدعنوانی کے امکانات موجود ہیں جو مروجہ طریقوں کی وجہ سے ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اگرچہ زرعی اراضی کا کسی بھی دوسرے مقصد کے لئے استعمال ممنوع ہے لیکن قواعد پر عمل درآمد کرانے میں خاطرخواہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ جس کی وجہ سے ایسی ہاؤسنگ سکیمیں وجود میں آتی ہیں

جہاں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہی ہوتی اور اکثر ایسے علاقوں میں بنائی جاتی ہیں جو رہائش کے لئے موزوں بھی نہیں ہوتے۔ پاکستان میں حسب آبادی مکانات کی کمی ہے یہی وجہ ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں یکساں اراضی اور مکانات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اِس کے علاوہ اراضی کے کرائے بھی عام آدمی کی قوت خرید سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ایسی صورت میں اگر حکومت آسان اَقساط پر قرض فراہم کرے تو بڑی تعداد میں لوگ اپنے گھروں کے مالک بن سکتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اراضی یا مکانات سے متعلق قانونی کاروائیاں برسوں تک چلتی ہیں۔صنعتی پیمانے پر گھر بنانے کا شعبہ (ہاؤسنگ) سماجی اور معاشی اثاثہ بھی ہے۔ جائیداد میں سرمایہ کاری سے بچت کا رجحان بھی بڑھتا ہے جو ایک اضافی ہدف ہے اور یہ ہدف باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں دیکھنے میں آیا کہ کراچی میں عدالت  نے غیرقانونی تعمیرات گرانے کا حکم دیا جس سے متوسط طبقات کے لوگ بھی متاثر ہوئے۔ تجاوزات کی حوصلہ شکنی اپنی جگہ اہم ہے لیکن تجاوزات قائم ہونے کے بعد اُن کے خلاف کاروائی سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس میں تجاوزات کے قیام کو روکا جائے اور سرکاری اراضی کی حفاظت کی جائے۔ اِس سلسلے میں ججز بطور ایگزیکٹو مجسٹریٹ اپنے اضلاع میں اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کو بھی ہدایت دے سکتے ہیں کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ایسی بے قاعدگی اور غیر قانونی تعمیرات نہ ہونے دیں جو بعد میں سب کے لئے دردسر بن جاتی ہیں۔ وزیراعظم کے سٹیزن پورٹل پر شکایات درج کرانے والوں میں نصف تعداد (لاکھوں) ایسی ہی شکایات ہوتی ہیں جن میں سرکاری یا نجی اراضی پر قبضہ کئے جانے کی جانب حکومت کی توجہ دلائی جاتی ہے۔ متوسط طبقے کے لئے اپنا گھر ساری زندگی کا خواب اور ضرورت ہوتا ہے آسائش نہیں اور اگر صورتحال کے اِس پہلو کو مدنظر رکھا جائے تو حکومت کو فیصلہ سازی کرنے میں آسانی رہے گی کہ وہ عام آدمی کے مفاد کا تحفظ کرتے ہوئے اُس کے لئے ایک گھر فراہم کرے جہاں وہ باعزت طریقے سے زندگی بسر کر سکے۔