کام زیادہ ہوں اور کم وقت میں کرنا ہوں۔ پھر ایک دن کی بات نہ ہو۔روزانہ کا معمول ہو جس میں کوئی وقفہ بھی نہ ہو۔پھر گھریلو ہوں تو بندہ چڑچڑا ہو ہی جاتا ہے۔ اس بات کا اثر اس کے دفتر او رکام کاج دکان وغیرہ پر بھی پڑتا ہے۔گھر سے صبح صبح جھڑپ کرکے نکلوتو ویسے ہی موڈ خراب رہتا ہے۔خواہ کالج‘سکول ہو یونیورسٹی ہو مگر آدمی ڈسٹرب رہتا ہے۔سو اس کا نہ تو کام میں دل لگے گا اور نہ ہی وہ درست طریقے سے کہیں ٹیچنگ کر سکے گا۔ پھر اگر افسر ہے تو ناحق اس کے سٹاف کی شامت آ جائے گی۔ سٹاف والے بھی کہیں گے خیر تو ہے آج صاحب پہلے جیسے نہیں۔”بدلے بدلے مرے سرکار نظر آتے ہیں“۔غالب کا شعر ہے کہ ”کیوں گردشِ مدام سے گھبرانہ جائے دل۔انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہو ں میں“۔یعنی یہ پیالہ ہے جو لوگوں کے منہ لگے گا تو او رباربار لگے تو نہیں گھبرائے گا۔مگر انسان کبھی ایک کے پاس جاتا ہے او رکبھی دوسرے کے پاس اور پھر لوگ خود روزانہ اس کے منہ لگتے ہوں۔ اس موقع پربندہ بات بات پہ ناراض او رکڑھنے جلنے کا عمل شروع کر دیتا ہے۔بہانہ بنا کر نامعلوم طریقے سے سامنے والے کے ساتھ بھڑ جاتا ہے۔سڑک پر جا رہا ہے تو معمولی بات پر رکشہ‘موٹر سائیکل والے اور ٹریکٹر ٹرالی والوں سے الجھ جائے گا بلکہ اگر رکشہ والا ہوموڑ کاٹتے وقت ذرا دقت پیش آئے تو گاڑی والے کو گھور کر دیکھے گا۔ آپ پوچھیں خیر تو ہے۔رکشہ والاگاڑی والے کے بارے میں کہے گا نہیں یار مجھے گھوررہا ہے حالانکہ قصور خود رکشہ ڈرائیور کا ہوگا۔ انسان کو اس شہر میں جہاں آگے ہی ہر قسم کی ٹینشن کا سامنا ہے اگر چڑچڑا پن بھی حاصل نہ ہو سکے تو اور اس نے اس معاشرے میں رہ کر یہاں کیا حاصل کرنا ہے۔گھر میں ہوں تو بچوں کے ساتھ الجھنا بات بات پر گھر میں ہونے والے ہر کام پر اعتراض کرنا۔ایسا مت کرو ویسا کر لو۔ یہ تو اس آدمی کی باتیں ہیں جو دھیمے مزاج کا ہو۔مگر وہ جو پہلے ناک پہ غصہ دھر کر بیٹھا ہو اس کے ہاتھوں گھر میں بھی ایک بے سکونی کا سماں ہوگا اور دفتر پھر روزگار اور بازار ہر گاہ اس کی کسی نہ کسی سے مڈبھیڑ رہے گی۔مزاج میں یہ چیزیں جان بوجھ کر داخل نہیں کی جاتیں۔ یہ خود بخود آدمی کی طبیعت کا حصہ بن جاتی ہیں۔پھر وہ اگر ان کے اوپر قابو بھی کر لے تو اندر اندر سلگ رہاہوتا ہے۔بات کرو تو مختصر ترین الفا ظ میں جواب دے گا۔ سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ آدمی کے ماتھے پر ویرانی کے آثارہیں۔وہ جو آہستہ مزاج ہوں ان کا یہ حال ہو تو وہ کیا ہوں گے جن کی معاشرے میں غصے کی وجہ سے پہچان پہلے سے ہوگی۔ ہم خدا کی مخلوق ہیں۔ہم سب ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو دبا رہاہے۔جس کا جہاں بس چلتا ہے چاہتا ہے دوسرے کی گردن پر پاؤں رکھوں۔بعض لوگ ناحق اور بلا وجہ چڑچڑے مزاج کے ہوتے ہیں۔معلوم نہیں ناشتے میں کیا کھاکر آتے ہیں کہ عام سی بات پر اتنا زیادہ ری ایکشن دیتے ہیں کہ بندہ حیران بلکہ پریشان او رکم نہیں کچھ زیادہ ہوجاتا ہے۔ان باتوں سے معاشرتی زندگی جو پہلے سے تنگی کاشکار ہے اور زیادہ تنگی ترشی سے گذرنے لگتی ہے۔ماتھے پہ پسینے آنے لگتے ہیں یہ سوچ کر کہ آگے سخت زندگی کیسے گذرے گی۔ سو اس موقع پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ صبر و برداشت سے کام لینا چاہئے۔دوسرے کے مؤقف کو سننا چاہئے۔اپنی خاطر نہ سہی اس کا دل رکھنے ہی کو سہی اس کو سن لینا چاہئے۔ دوسرے کی بات پر دھیان دے کر اس کو سننا بڑے اجرو ثواب کاکام ہے۔مسکراہٹ پھیلانا اور ملنا صدقہ ہے۔اصل میں آج کل سائنس کی دی ہوئی سہولیات کے باوجود معاشرے میں چلنا پھرنا اور بھی دشوار تر ہوا جاتا ہے۔اس زندگی میں ان دنوں کس کو اتنی فرصت میسر ہے۔ہر آدمی جلدی میں ہے او رپتہ نہیں کس بات کی جلدی ہے۔مگر جس کو دیکھو دوڑرہا ہے۔ہمارا معاشی نظام بھی ٹھیک نہیں ہے۔ایسے میں کہ انسان بال بچوں کے لئے روٹی کمائے اورروٹی مہنگی ہو دال مہنگی ہو بندہ کہا ں جائے۔ دال کھانا پہلے غریبو ں کے ساتھ منسوب تھا۔مگر آج کل تو دال بھی گراں نرخوں پر ہے۔کیا ہے جو سستا ہے۔ہر شئے آگ کے مول ہے۔بائیک میں پٹرول ڈلوا ؤ تو دو سو روپے کے پٹرول کی تو ایک دن میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ سڑک پر پٹرول ختم ہوگا تو اس ضدی گائے کو عین روڈ کے درمیان گھسیٹ کر پمپ پر لے جانا پڑے گا۔بندہ چڑچڑا نہیں ہوگا تو کیاہوگا۔ جو بھی سودا لینے جائے یا تو کم لاتا ہے یا پھر زیادہ پیسے دینا پڑتے ہیں۔وہاں آمدن کم ہے۔بندہ پاگل ہوجاتا ہے۔کیا کر ے کیا نہ کرے۔