اہم پیش رفت

ملکی حالات تو جس رخ پر جار ہے ہیں وہ سب ہی جانتے ہیں، سیاسی گرما گرمی ہے اور آگے کیا ہوتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم یہ مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ ہر حالت میں صبر و تحمل اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے، حکومت آنی جانی چیز ہے تاہم ملکی سالمیت اور اس کا استحکام تمام جماعتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد اب ذکر کرتے ہیں کچھ عالمی حالات و واقعات کا، جہاں یمن میں طویل خانہ جنگی کے بعد اب امن کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کے نمائندے نے کہا ہے کہ یمن کے 7 سالہ تنازعے کے دوران آپس میں لڑنے والے فریقین نے پہلی مرتبہ ملک گیر جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، جنگ بندی کے معاہدے کے تحت حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ایندھن کی درآمد اور صنعا کے ہوائی اڈے سے پروازوں کی اجازت ہوگی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فریقین کے درمیان اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والا معاہدہ اس تنازعے کے خاتمے کی جانب اب تک کا سب سے اہم قدم ہے۔یمن تنازعہ نے ہزاروں افراد کو ہلاک اور لاکھوں کو بھوک کی جانب دھکیل دیا ہے۔ملک بھر میں جاری جنگ بندی  کیلئے آخری مربوط فیصلہ 2016 میں امن مذاکرات کے دوران ہوا تھا جو بعد ازاں ناکام ہوگیا تھا۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ہنس گرنڈبرگ کا کہنا ہے کہ دو ماہ کی جنگ بندی گزشتہ روز سے نافذ ہوگئی ہے اور فریقین کی رضامندی سے اس جنگ بندی کی تجدید ہو سکتی ہے۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کا  مزید کہنا تھا کہ فریقین یمن کے اندر اور اس کی سرحدوں میں تمام جارحانہ فضائی، زمینی اور سمندری عسکری کاروائیاں روکنے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فریقین نے ایندھن کے جہازوں کو حدیدہ کی بندرگاہوں میں داخل ہونے اور صنعا کے ہوائی اڈے کے اندر اور باہر پہلے سے طے شدہ راستوں پر تجارتی پروازیں بحال کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔جنگ بندی کیلئے قوام متحدہ اور دیگر کئی ممالک گزشتہ سال سے کوشش کر رہے تھے کہ تنازعہ ختم کرنے کیلئے 2018 کے اواخر سے رکے ہوئے سیاسی مذاکرات کو بحال کرنے کیلئے ایک مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ اس وقت  فریقین   قیدیوں کے تبادلے پر بھی بات چیت کر رہے ہیں جس کے تحت دونوں جانب سے سینکڑوں قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔دوسری طرف عالمی منظر نامے پر یوکرین اور روس کے تنازعے کے بعد اگر کوئی معاملہ زیر بحث ہے تو وہ سری لنکا کا معاشی بحران ہے۔ سیاحت کیلئے عالمی شہرت رکھنے والے ملک کی معیشت اس حد تک کمزور ہوگئی ہے کہ وہاں پر ان دنوں کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ عام اشیائے ضرورت‘ ایندھن اور گیس کی بھی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ یہ ملک اپنی آزادی کے بعد سے اب تک کے بدترین اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔
ملک میں فی الوقت غیر ملکی کرنسی کے ذخائر انتہائی نچلی سطح پر ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ زرمبادلہ کی شدید کمی کے باعث ایندھن اور دیگر ضروری درآمدی اشیاء کی قلت پیدا ہو گئی ہے اس کے ساتھ ہی آسمان کو چھوتی افراط زر کی شرح اور اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بھی سری لنکا کے عوام کیلئے زندگی بہت مشکل کر دی ہے۔ اس ایک ماہ کے دوران ہی ملک کا معاشی بحران بد سے بدتر ہوا جبکہ ملک میں گیس سٹیشنوں پر ڈیزل اور پٹرول ہی ختم ہو گیا ہے۔سر ی لنکن حکومت کا کہنا ہے بجلی پیدا کرنے کیلئے اس کے پاس ایندھن ختم ہو چکا ہے۔ ملک کے کئی سرکاری ہسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات کی بھی قلت ہے اور اس کے سبب ہسپتالوں میں معمول کے آپریشن بھی روکنا پڑ گئے ہیں۔آئندہ دنوں میں سری لنکا نئے قرضوں کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بات چیت کرنے والا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے اس طرح کا ڈھانچہ بنایا ہے کہ اس میں ترقی پذیر ممالک  کو قرضوں میں جکڑا جاتا ہے۔اس وقت ایک متبادل عالمی معاشی نظام کی ضرورت بہر حال محسوس کی جارہی ہے۔جس کی طرف چین اور روس نے شروعات بھی کی ہیں۔ گزشتہ روز روس کے وزیر خارجہ نے جو چین کا دورہ کیا تو اس میں یہ اہم معاملہ بھی زیر غور آیا کہ کس طرح امریکہ اور مغرب کے بنائے ہوئے معاشی ڈھانچے سے ہٹ کر ممالک آپس میں تجارت کر سکتے ہیں۔ روس نے چین کی کوششوں میں ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا ہے اور ساتھ کہاہے کہ منصفانہ ورلڈ آرڈ ر میں وہ چین کی کوششوں میں بھر پور ساتھ دے گا۔