رمضان: سبیل ِتقویٰ

لغوی مطلب: لفظ رمضان ”رمض“ سے مشتق ہے‘ جس کے معنیٰ گرم ہونا اور تیز دھوپ میں چلنے سے پاؤں کا تلوؤں کا جلنا ہے۔ اِسے رمضان اِس لئے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اِس میں اللہ تعالیٰ روزے دار کے تمام سابقہ گناہوں کو جلا دیتے ہیں یا گناہ مٹا دیتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا (ترجمہ) اِس ماہئ مبارک کو رمضان اس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ گناہوں کو ”رمض“ کردیتا ہے یعنی گناہوں کو جلادیتا ہے۔ عربی زبان میں روزے کو”صوم“ کہا جاتا ہے‘ جس کا مطلب ”رکنا (یعنی کسی بُرائی والے کام سے باز (الگ) رہنا)“۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماہئ شعبان المعظم کے آخری دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”اے لوگو‘ تم پر عظمت و برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اس مہینے کی ایک رات جسے شب قدر کہا جاتا ہے ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
 اس مہینے کے روزے فرض کئے گئے اور اِس کی راتوں میں نماز تراویح کو نفل عبادت قرار دیا گیا‘ جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب حاصل کرنے کیلئے غیرفرض عبادت (یعنی سنت یا نفل ادا کرے گا تو اسے دیگر ایام کے فرائض کے مساوی ثواب ملے گا اور (یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ) رمضان کے دوران کوئی فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے عرصے کے 70 فرضوں کے برابر ہوگا۔ رمضان صبر کا مہینہ ہے جس کا بدلہ جنت ہے‘اِستقبالِ رمضان: رمضان سبیل تقویٰ ہے جس کی زیادہ سے زیادہ برکات سمیٹنے کیلئے شعوری کوشش (خاطرخواہ محنت) کا پختہ عزم ضروری ہے۔ 1: رمضان المبارک کی ابتدأ داخلی تبدیلی پیدا کرنے کی نیت (ارادے) سے ہونی چاہئے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔“ نیت تحریک کا نام بھی ہے جو شعور و ادراک پیدا کرتی ہے اور شعور سے ارادے کو استحکام یعنی ثابت قدمی ملتی ہے‘ جو کسی بھی کام یا عبادت کی کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔
 2: رمضان کے معمولات کیا ہوں گے یہ پہلے سے طے کر لیں اور زندگی کی ترتیب بنا لیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادات کیلئے مختص کیا جا سکے۔ 3: رمضان یا عید الفطر کیلئے خریداری زیادہ سے زیادہ پہلے عشرے ہی میں مکمل کر لیں تاکہ بعدازاں رمضان کے قیمتی لمحات ضائع نہ ہوں اور ویسے بھی بازاروں میں ہجوم بڑھ جاتاہے۔ 4: روزے فرض ہیں جنہیں کسی شرعی عذر کے بغیر چھوڑنا سخت گناہ ہے‘ یہ شرعی عذر بھی اپنی عقل کے مطابق خود طے نہ کریں بلکہ کسی مفتی یا عالم دین سے مشورہ کر لیں تاکہ سکون قلبی سے روزوں کو اِن کی اصل روح کے ساتھ مکمل کر سکیں۔ 5: روزے کا فدیہ دے کر روزہ نہ رکھنا فیشن بن چکا ہے۔ فدیہ انتہائی مجبوری کے عالم میں صرف اُن صورتوں میں جائز ہے، جبکہ اِس سے زندگی کو خطرے کا احتمال ہو اور روزہ رکھنے کی صورت میں کسی شخص کی موت ہونے کا امکان ہو۔ بیماری کی ایسی انتہائی حالت کے علاوہ اور بنا طبی مشورہ ہر شخص پر روزہ رکھنا لازم ہے۔
 اگر اچانک بیماری کے باعث رمضان میں روزہ نہ رکھا جا سکے تو روزوں کی گنتی بعد میں پوری کر لی جائے۔ 6: روزہ‘ محض بھوک پیاس کا نام نہیں بلکہ آنکھ‘ کان‘ زبان‘ ہاتھ پاؤں‘ غرض جسم کے ہر عضو کا روزہ ہونا چاہئے۔ 7: قرآن اور رمضان کاآپس میں گہرا تعلق ہے۔ نیت کر لی جائے رمضان میں قرآن سے تعلق مضبوط یا مزید مضبوط کیا جائے گا اور قرآن کریم کا روزانہ بمعہ ترجمہ و تفسیر مطالعہ کیا جائے گا۔8: رمضان کا لمحہ لمحہ عبادت میں صرف کرنا ہی دانشمندی ہے۔ ابتدائے رمضان ہی سے چلتے پھرتے‘ اُٹھتے بیٹھتے ذکرِ الٰہی کی عادت بنا لینی چاہئے۔ 9: نیت کر لی جائے کہ رمضان کی راتوں میں تراویح‘ تہجّد‘ توبہ اور تلاوت کلام پاک کو معمول بنایا جائے گا۔ 10: نیت کر لی جائے کہ شب قدر کو طاق راتوں میں تلاش کرنے کیلئے عبادت اور ذکر و اذکار کی صورت محنت کی جائے گی۔ 11: رمضان میں زکوٰۃ کی ادائیگی پر ستر گنا زیادہ ثواب پانے کیلئے مستحق افراد کی تلاش کر لیں تاکہ شروع رمضان ہی میں زکوۃ ادائیگی کے فرض سے سبکدوش ہو سکیں۔ 12: نیت کر لیں کہ رمضان میں نیکی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے خواہ وہ کسی مسکین یا غریب کی مالی مدد ہو‘ راستے میں پڑا پتھر ہٹانا ہو‘ زیادتی پر صبر کرنا ہو یا کسی روزے دار کا روزہ افطار کروانا ہو‘ یہاں تک کہ اپنے کسی مسلمان بھائی کیلئے اللہ کی رِضا کیلئے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔ 13: نیت کر لیں کہ رمضان میں غصے پر قابو پائیں گے اور حد درجہ نرمی سے کام لیتے ہوئے اپنی نگاہوں کے ساتھ زبان کی حد درجہ حفاظت کریں گے تاکہ دانستہ یا غیردانستہ طور پر زبان سے غیبت و بہتان‘ چغلی و دروغ گوئی (جھوٹ) اور فحش و فضول کلامی (رمضان کی بے ادبی) سرزد نہ ہو۔