یہ تینوں آج کل نایاب ہیں۔بجلی ہوگی تو پانی آئے گا۔بارش بھی نہ ہو تو پھر کیا کریں۔ مگر بارش کا پانی پینے کیلئے نہیں ہوتا۔گھر کی چھت پر دو رویہ ڈھلوان کی ٹینکی رکھ دیں کہ بارش ہو تو اس کا پانی سٹور کیا جاسکے۔مگر کبھی کبھار کی بارش سے تو یہ مسئلہ حل ہونے سے رہا۔کبھی سوئی گیس نہیں ہوتی۔ گیس چولھوں میں آئے تو لائٹ چلی جاتی ہے۔رات کو گور اندھیرا اورہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔کہیں تو شمع جلائی جاتی ہے۔ پھر کہیں موبائل کی ٹارچ روشن کرنا پڑتی ہے۔مگر کب تلک موبائل کی بیٹری سے کام لیں گے۔ کیونکہ موبائل کی سٹوریج اگر ٹارچ میں ضائع ہو گئی تو پھر کیا۔ موبائل استعمال بھی تو کرنا ہے۔بجلی جائے تو اتا پتا چھوڑ کر نہیں جاتی۔کبھی تو اچانک سے دوبارہ آتی ہے۔پھر دس منٹ کے بعد از سرِ نو غائب اور یوں غائب کہ دور دور تک اس کے آثار ملتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔
بلی چوہے کو براہِ راست نہیں پکڑتی۔اس کو روک لیتی ہے۔ وہ دوڑنے بھاگنے سے رک جاتا ہے۔پھر بلی اس کے قریب جا کر اس کے ساتھ کھیلتی ہے۔پھر اگر اس کو کھانا ہو تو کھاتی ہے۔ہمارے ساتھ چوہے بلی والا کھیل جاری ہے۔ مگر اب سے تو نہیں یہ تو کب سے ہے۔عرصہ دراز سے بجلی کی آمدورفت ہے او رہم ہیں پھر بھی بجلی کے بلوں کے بڑے بڑے پھڑپھڑے آ جاتے ہیں۔بجلی نہ ہو تو اتنا بل کہ ہزاروں میں ادا کرنا ہے۔اگر بجلی ہو تو کتنا بل ہوگا جو ناقابلِ ادا ہوگا۔ مگر کیا کریں کہ بجلی ہمارے گھریلو سسٹم او رمعاشرتی نظام میں اس طرح داخل ہے کہ اس کو ہم نے اپنے سسٹم سے نکالنا نہیں۔وگرنہ سانس بند ہوجا نے کا قوی اندیشہ ہے۔نہ تو کپڑے دھوئیں جائیں نہ پانی کی موٹر لگے گی۔ بس ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر یونہی بیٹھ جائیں گے۔پانی‘بجلی اور گیس انتہائی اہم اور انتہائی ضروری چیزیں ہیں۔مگر ان کا ساتھ نہ ہو تو آدمی کہیں کا نہیں رہتا۔پہلے تو کہتے تھے کہ یہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہے۔
یہ تو لوڈ مینجمنٹ ہے یعنی ایک جگہ سے بجلی لے کر دوسرے محروم علاقے کو دیتے ہیں۔مگرکچھ برسوں سے ہمارے ہاں بجلی وافر مقدار میں بن رہی ہے۔کہتے ہیں کہ بجلی چوروں کیلئے ہمارے پاس بجلی نہیں۔تو کیا جو شہری چوری والے علاقے میں رہائش پذیر ہیں وہ اپنے گھر باراونے پونے داموں بیچ باچ کر دوسرے علاقوں میں شفٹ ہو جائیں۔ اگر وہاں شفٹ ہوئے تو کیا ضمانت ہے کہ وہاں بجلی ہمہ وقت ہوگی۔جانے یہ بجلی لے جا کر اس کا کرتے کیا ہیں۔معاملہ سمجھ سے باہر ہے۔یہ سچ ہے کہ پچھلی حکومتوں نے غلطیاں کیں او رڈیم نہ بنائے اب موجودہ حکومت نے اگر چہ کئی اہم ڈیموں کے منصوبے شروع کئے ہیں تاہم ان کی تکمیل کے بعد بھی کیا بجلی کا مسئلہ مکمل طور پر حل ہوجائے گا۔یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔یہا ں تو بچہ جمورا کی مانند شہر بھرمیں گھوم جائیں تو ہر علاقہ بجلی کے ہاتھوں پریشان نہیں بلکہ رو رہا ہے۔سرکاری دفاتر ہوں بینک ہوں یا گھر ہوں۔کہیں بھی بجلی کا مسلسل ہونا نہیں ہے۔وقفے ہیں اور لمبے پینڈوں کے وقفے ہیں۔یہی سوال دہراتے ہیں کہ بجلی آخر جاتی کہاں ہے۔معاملہ بس سے باہر بھی ہے اور سمجھ سے باہر بھی ہے۔