چین اور یورپ کا تعلق بھی عجیب سا ہے، دونوں ایک دوسرے کے مخالف بھی ہیں اور ایک دوسرے پر انحصار بھی کرتے ہیں۔کئی عشروں سے یورپی ممالک خاص طور پر جرمنی، چین کی جانب سے استعمال ہوتا رہا ہے اور یورپ میں جرمنی کو چین کے حامیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔تاہم اب حالات بدلنے لگے ہیں اور روس کے یوکرین پر حملے کے بعد چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر اس سے فاصلہ رکھنے لگا ہے۔ تاہم یورپ کیلئے روس کے ساتھ دشمنی توآسان ہوسکتی ہے اگر چہ انہیں اس میں بھی حد درجہ مشکلات کا سامنا ہے تاہم چین کے ساتھ دشمنی اور اس کے ساتھ یکسر روابط کو ختم کرنا شاید اب یورپ کے بس میں نہیں۔کیونکہ یہ معیشت ہے جس کا اثر رسوخ کسی بھی حکومت کو طاقت دیتا ہے۔
روسی معیشت کے ساتھ ساتھ ماسکو کا طاقت ور اثر و رسوخ بھی کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ جبکہ بیجنگ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ کیونکہ چینی حکمت عملی بظاہر دور کی کوڑی لگ رہی ہے اور وہ طویل المدتی مقاصد کے لیے مضبوط شراکت داری جاری رکھنا چاہتا ہے، تاکہ مستقبل میں سستی توانائی کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی لیے بیجنگ حکومت اس بات پر زور دیتی ہے کہ وہ روس یوکرین تنازعے میں فریق بننے پر مجبور نہیں ہونا چاہتی۔اگرچہ اب تک چین نے روس کی حمایت جاری رکھنے کا وعدہ اور جنگ کی مذمت سے گریز کی پالیسی اپنائی ہے۔دوسری جانب چین خود اقتصادی پابندیوں سے بچنا چاہتا ہے کیونکہ یورپی یونین اس کیلیے سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے اور اس سے چین کو اپنی اقتصادی ترقی جاری رکھنے کی ضمانت ملتی ہے۔
اقتصادی اعتبار سے چین قطعی طور پر یورپی یونین اور امریکہ کو اپنے ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہے گا۔ کیونکہ یہاں پر چین کا پلڑا بھاری ہے کہ یورپی یونین کے کئی رکن ممالک کافی حد تک چینی سیلز مارکیٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں یورپی یونین اور چین کے سربراہی اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ورچوئل ملاقات کے دوران یورپی یونین کے رہنماؤں نے یہ واضح کیا کہ یوکرین کی جنگ یورپی سلامتی کے مرکزی مفادات کو متاثر کرتی ہے، جسے بیجنگ کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ جبکہ سیاسی مبصرین کے مطابق جغرافیائی اعتبار سے یورپی یونین گزشتہ دو برسوں میں چین پر اپنی گرفت کھو چکی ہے، خاص طور پر جب سے اس نے چین کو ایک مختلف نظام والا حریف قرار دے کر سرمایہ کاری معاہدوں کو روکا ہے۔اس طرح یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس وقت چین اور یورپی یونین کے تعلقات ناز ک موڑ پر ہیں تاہم چین کی دور اندیش قیادت نے ماضی میں بھی جو فیصلے کئے وہ موثر رہے اور اس وقت بھی چین ایک بہت ہی محتاط پالیسی پر عمل پیرا ہے۔