’جیت‘ پاکستان کی 

ناقابل یقین ہے اور ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان خوشخبری سننے کا متمنی ہے کیونکہ سیاسی انتشار و عدم استحکام سیاسی منظرنامے پہ چھایا ہوا ہے اور اس پورے ہنگام کہیں نہ کہیں جیت بہت ضروری تھی کہ مجموعی قومی سوچ کو تازہ ہوا کا جھونکا ملے اور مرجھائے ہوئے چہرے کھل اُٹھیں! کرکٹ کی دنیا سے خبر ہے کہ بابر اعظم نے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کئی امیدوں اور ارمانوں سے پاکستان بلائی گئی آسٹریلین ٹیم کو ایک ماہ سے زیادہ بیت چکا ہے مگر اس عرصے میں کھیلی گئی زیادہ تر کرکٹ میں پلڑا ’کینگروز (آسٹریلیا)) ہی کا حاوی رہا مگر پھر جو موقع ملا تو پاکستان نے سارے حساب چکتا کر دیئے اور خاص کر بابر اعظم نے اپنا وقار بحال کر دکھایا۔ بحیثیت ِمجموعی‘ حالیہ دورے کے دوران آسٹریلوی تیز بالرز (پیسرز) پاکستانی بلے بازوں کیلئے مستقل دردِ سر بنے رہے۔ کراچی ٹیسٹ میں مچل سٹارک کی برق رفتار ریورس سوئنگ نے پاکستانی بیٹنگ کی قابلیت پہ سوالات اٹھا چھوڑے تو لاہور میں سٹارک اور کمنز دونوں ہی پاکستانی مزاحمت کو روند کر گزر گئے۔ اور تو اور‘ پہلے ون ڈے میں بھی جب پاکستان کو ایک نہایت غیر متوقع شکست کا ذائقہ چکھنا پڑا‘ تب بھی اس میں بنیادی کردار اوائل کے پیس اوورز کا ہی تھا‘ جہاں پاکستانی اننگز رفتار نہ پکڑ پائی اور باقی ماندہ میچ راہ کھوجتے کھوجتے زیمپا کی سپن کی نذر ہو گیا اور اس شکست نے صرف ٹیم کے مورال کو ہی متاثر نہیں کیا تھا بلکہ ورلڈ کپ سپر لیگ کے ٹیبل میں بھی پاکستان کو ایک خفت آمیز مقام پہ لا کھڑا کیا تھا۔ پھر‘ اس کے بعد جس انداز سے پاکستان دوسرا ون ڈے کھیلا تو یہ امید ہو چلی تھی کہ سیریز کا آخری فیصلہ کن میچ خاصا کانٹے دار ہو گا اور یہ خدشہ تو بہرحال تھا ہی کہ جیسے ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مقابلوں میں آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کا ریکارڈ حسرت کی تصویر سا رہا ہے‘ لگ بھگ ویسا ہی رجحان گذشتہ کئی دوطرفہ ون ڈے سیریز میں بھی دیکھنے کو ملا‘ جہاں برابری پہ شروع ہونے والے فیصلہ کن میچز اکثر پاکستان کی شکست پہ منتج ہوتے مگر بابر اعظم کو موقع ملا تو گویا اس نے ساری تاریخ ہی بدل ڈالی!
 بھلے ہی بطور کپتان ان کے پچھلے کچھ دن اچھے نہیں رہے مگر یہاں ان کے پاس پھر ایک موقع ہے کہ وہ یہ تلخ یادیں اپنے شائقین کے دلوں سے محو کر سکیں اور بابر نے کنفیوژن کی بجائے سیدھا سا رستہ اپنایا‘ کسی نئے پلان کی بجائے‘ کینگروز کو انہی کے اپنے دام میں پھنسا چھوڑا۔ وارنر اور سمتھ کی غیر حاضری کے بعد یہاں اکیلے ٹریوس ہیڈ ہی تھے جو اس کمزور آسٹریلوی بیٹنگ لائن کو اچھے آغاز فراہم کرتے چلے آ رہے تھے۔ انہی کے سائے میں مک ڈرمٹ کو بھی اپنے ہاتھ کھولنے کا موقع مل جاتا تھا اور ایک قابل ِقدر ہدف ترتیب ہو پاتا مگر پاکستانی پیسرز نے اوائل کے اوورز میں لائن و لینتھ کے ڈسپلن کی نظیر قائم کر دی۔ شاہین شاہ آفریدی نے کسی کو کچھ سوجھنے ہی نہیں دیا۔ اننگز کی پہلی ہی گیند ایسی تیزی سے اندر آئی کہ ہیڈ کے ساتھ ساتھ آسٹریلوی اننگز کے بھی سارے ارمان بہا لے گئی اور جب اگلے ہی اوور میں حارث رؤف نے فنچ کو بدحواس کر ڈالا تو آسٹریلیا کی ناؤ گہرے پانیوں کی جانب بڑھنے لگی اور پھر اگر بات کہیں سنبھلنے بھی لگی تو وسیم کی ریورس سوئنگ نے ساری بساط ہی لپیٹ دی جہاں ایک نہایت کانٹے دار مقابلہ متوقع تھا‘ وہاں آسٹریلوی ٹیم بالکل ایک تھکے ہارے لشکر کی مانند نظر آئی۔ جس تیز رفتاری (پیس) سے آسٹریلیا اس دورے میں اب تک پاکستان کو مات کرتا آیا‘ پاکستان نے اُسی رفتار (پیس) کا ادھار پورے سود سمیت لوٹا دیا۔
 پاکستانی باؤلنگ میں جو ارتکاز‘ درستی اور مہارت نظر آئی‘ اس کے سامنے یہ آسٹریلیا کی ہمت ہی تھی کہ دو سو کا ہندسہ چھو گیا اور پھر جب امام الحق اور بابر اعظم ایسی بہترین فارم میں ہوں تو ایسا مہین سا ہدف کیا بیچے گا؟ کرکٹ کے میدان میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی اگر مستقل رہے تو اِس سے دائمی فائدہ ممکن ہے لیکن کارکردگی کی اُونچ نیچ سے حاصل شدہ فوائد بھی زیادہ عرصہ زندہ و یادگار نہیں رہتے۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو قومی ٹیم نے آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں جو کارکردگی دکھائی ہے وہ کئی حوالوں سے اہم ہے اس سے ہمیں صرف قومی ٹیم کی رینکنگ میں بہتری آئی ہے بلکہ کھلاڑیوں کی درجہ بندی بھی بہتر ہوگئی ہے بابر اعظم نے بطور کپتان جو پرفارمنس دی ہے وہ یادگار ہے اور بطور بیسٹمین بھی اس نے کئی ریکارڈ اپنے نام کئے کم ون ڈے میچز میں سولہ سنچریاں پورا کرنے کے معاملے میں اس نے ہاشم آملہ‘ ویرات کوہلی اوروارنر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے یوں ایک طرف قومی ٹیم نے مہمان ٹیم کاکھیل کے تمام شعبوں میں بھرپور مقابلہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ پاکستان میں کرکٹ کے لئے جو جذبہ موجود ہے اس کو دیکھتے ہوئے عالمی کرکٹ میں اس کے مقام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی پاکستان پر عالمی کرکٹ کے دروازے بند کئے جا سکتے ہیں۔