افراتفری یا افرا تفریح

کیا اچھا ہو کہ ہماری ٹریفک بہت آرام سے رواں دواں ہو۔اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔رش تو ہو مگر کیوں ہو اگر ہو تو اس وجہ سے نہ ہو کہ راستے میں کوئی شخص گاڑی آڑھی ترچھی کھڑی کر کے چلا گیاہو۔اگر ٹریفک کی بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے تو ہو مگر ایک سلسلہ در سلسلہ ہو۔پھر کسی گاڑی کے پایے رکے نہ ہوں کہ راستہ کھل جائے تویہ گاڑی آگے بڑھے۔گاڑیوں کے قافلے ہوں۔ بے شک ہوں کہ یہی تو شہر کی رونق ہیں اور اس شہرِ گل کی زینت ہیں۔مگر ان کی روانی میں خلل انداز کوئی نہ ہو۔گاڑی کے پیچھے گاڑی ہو مگر سب ڈرائیو کرنے والے صبر و تحمل سے گاڑیوں میں جاتے جائیں۔ اگر اتنا ہو جائے تو پھر کاہے کی بے چینی او راضطراب ہو۔پھر تو شہر جنت کا ایک نمونہ بن جائے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ہمارے ہاں کچھ نہیں ہے۔کسی چیز کا سسٹم نہیں ہے۔نظام اگر ہے تو فرسودہ۔پھر ایسا کہ دقیانوس کے زمانے کی یاد دلائے۔ٹریفک میں تو اول روزے کے دو دن پہلے سڑکوں پر وہ اودھم مچی کہ توبہ توبہ۔پیدل چلنے والے گاڑیوں کے درمیان پھنسے ہوئے رُکے ہوئے نظر آئے۔اب انھیں کوئی راستہ دے تو وہ آگے بڑھیں گے۔ورنہ تو کبھی بائیک کے اگلے ٹائر پر سے پھلانگ کر دوسری گاڑی کے آگے جا کر کھڑے ہوگئے۔ کبھی دائیں کبھی بائیں دیکھتے ہیں مگر راستہ جو نہیں ملتا۔ ایسے میں خواتین کابھلا کیا برا حال ہوا ہوگا۔ جب ہر گاڑی والا راستہ نہ دے تو بندہ کہاں جائے۔ ہر کس و ناکس اپنا راستہ ناپنا چاہتا ہے۔
 ہمارے ہا ں کی ٹریفک تو ٹیڑھی کھیر ہے۔ایسااونٹ ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔مگر بیٹھ جائے تو دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ہر ایک کے اونٹ ہیں او رشترِ بے مہار ہیں۔ شہر کو ریگستان کی سرزمین سمجھ کر ریت کے جہاز بن کر اونٹوں کی شکل میں چار پایوں پہ سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔مگر تھوڑی سی عقل اگر وہ بھی بالفرض اگر استعمال کی جائے یہ افراتفری کے مناظر دیکھنے کو نہ ملیں۔ ہماری ٹریفک کو دیکھ کر دل سے ایک آہ نکلتی ہے۔ان کا نہ تو کوئی بڑا چھوٹا ہے اور نہ ہی ان کی سمت درست ہے۔جس کا جی چاہا جہاں سے نکل گیا۔ جس پتلی گلی سے نکل کر باہر مین روڈ پر پھر سے آگیا۔وہاں پہنچ کرپھر سے اس اژدہام ہجومِ بے کراں کا حصہ بن گیا۔ نہ کھیلوں نہ کھیلنے دوں۔نہ تو خود آگے جائے نہ ہی کسی اور کو اپنا گھوڑا آگے بڑھانے میں مددگار ہو۔ گھنٹہ گھر ہو یاچوک یاد گار ہو۔قصہ خوانی یا خیبر بازار ہویا صدر کا کوئی اورعلاقہ ہو ہر ٹریفک کے بے ہنگام اور بے ترتیب سلسلہ کو اسی افراتفری کی افراتفریح سے علاقہ ہے۔رکشہ والا کا جہاں اگلا ٹائر ہی سما سکے وہ اپنے سینگ سمیٹ کر وہاں جا گھستا ہے۔چنگ چی والے الگ پریشان ہیں راستہ نہ ملنے کے سبب سامنے سے آنے والی ٹریفک کے حصے کے راستے میں اودھم مچا رہے۔جس کی طبیعت جو کرنے کو مائل ہے وہ اسی طرف کا گھائل ہے۔
ایسے میں اگر کوئی سائیکل والا ان ہاتھیوں کی لڑائی میں آگیا تو اگر جان سے نہ گیا تو بدن پرکسی زخم کا نشان لئے گھر کو لوٹے گا۔ سائیکل کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے۔جہاں اتنی ٹریفک ہے۔جہاں اندر اندر اپنے مقررہ وقت سے پہلے ٹرک بھی گھسے پڑے ہوں وہاں کسی او رگاڑی کا کیاکام ہے۔چوک ناصر خان ہو یا شہباز کا کُھوو والا علاقہ ہو۔کسی جگہ کسی پل قرار نہیں ہے جو ان گلیوں کے مسافر ہیں او ریہیں کھیل کود کر جوان ہوئے ہیں اگر ان کے پاس موٹر بائیک ہے تو وہ راستوں سے جانکاری کے باعث یہاں ڈوبے وہا ں دوسرے ساحل پرنکل جاتے ہیں۔مگر جو مسافر ہیں اور صبح دم شہر میں کاروبار کو داخل ہوتے ہیں او رشام سمے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ان کیلئے یہ بات ازحد مشکل ہے کہ کون سی گلی کس طرف کو نکلتی ہے۔یہ کیا کہ اب گھر سے نکلتے ہی کچھ دورچلتے ہی بندہ رش میں ایسا کھو جائے کہ گھر والے سمجھیں وہ شہر سے باہر نکل گیا ہو۔ مگر ان کومعلو م نہ ہو کہ بندہ تو گھر کے ایک کلومیٹر دور ہی رش میں گاڑی کے سمیت یوں پھنسا ہے کہ اگر گاڑی کو چھوڑ کر شہری حدود سے دور پیدل نکل جائے تو جلد پہنچ جائے گا۔ اس پر وہ راضی بھی ہوگا۔ مگر گاڑی کو بیچ منجدھار کیسے چھوڑ کر نکل جائے۔گاڑی کو کون کاندھوں پر اٹھا کر گھر لے جائے گا۔ لہٰذا جس کا بوجھ ہے اسی نے سہارنا ہے۔