آج کاکا صاحب میں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد صاحب مرحوم کے مزار اقدس پر حاضری دی۔ عرصے سے ارادہ تھا کہ ان کی قبر پر حاضری دوں گا۔ آج موقع ملا تو پہنچ ہی گئے۔قاضی صاحب مرحوم سے دو تین دفعہ ملاقات اور بات چیت ہوئی تھی۔ کئی دفعہ ان کے جلسوں میں شرکت کی اور ان کی تقریریں سنی تھیں۔علامہ اقبال کے فارسی اور اردو اشعار سے مزین قاضی صاحب کی تقریریں جوش، علمیت، اخلاص، بے باکی، حکمت، احترام اور حب وطن کا بہترین نمونہ ہوتی تھیں۔ ان کی تقریر میں عزیزو! کا تکرار بڑا مزہ دیتا تھا۔ قاضی صاحب اسلام، جمہوریت، روایات، جدت، حکمت اور حق گوئی کا بہترین امتزاج تھے۔بے نظیر بھٹو مرحومہ کی دوسری حکومت کے خلاف راولپنڈی دھرنے کے دوران ان کے ساتھ بہت قریب رہا تھا۔ پولیس کی سخت شیلنگ اور لاٹھی چارج شروع تھی۔ سب کارکن۔تتر بتر ہوچکے تھے اور صرف چند کارکن قاضی صاحب کے ساتھ تھے اور ان کے پیچھے پیچھے چل اور نعرے لگا رہے تھے۔ پولیس آنسو گیس کے شیل سیدھے ہماری طرف پھینک رہے تھے۔ قاضی صاحب انتہاء تیزی اور دلیری کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ وہ کبھی دائیں، کبھی بائیں بدن اور سر پھیر کر اور کبھی نیچے جھک کر خود کو آنسو گیس کے شیل سے بچا رہے تھے اور آگے رواں دواں تھے۔خود ہمیں سانس لینے میں مشکل پیش آرہی تھی اور اگرچہ قاضی صاحب دل کے مریض اور بوڑھے تھے مگر میں انہیں دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ وہ جوانوں سے بھی زیادہ طاقت دکھاتے چل رہے تھے۔
اس دوران فائرنگ بھی ہوئی مگر قاضی صاحب بالکل بھی نہ ڈرے اور اسی چال سے چلتے رہے۔ پھر پولیس کے جواں بڑی تعداد میں ان پر ٹوٹ پڑے۔ چند ایک کارکن انہیں بچاتے رہے لیکن میں نے دیکھا کہ قاضی صاحب کو بھی کئی وار سہنے پڑے۔قاضی حسین احمد 1938 میں صوبہ خیبر پختونخوا میں نوشہرہ کے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے دس بہن بھائیوں میں آخری تھے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد مولانا قاضی محمد عبدالرب سے حاصل کی پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی۔ فراغت کے بعد جہانزیب کالج سیدو شریف میں لیکچرار بنے۔ مگر تین برس بعد مولانا مودودی کے کہنے پر ملازمت چھوڑ کر پشاور میں اپنا کاروبار شروع کردیا اور خود کو جماعت کیلئے وقف کردیا۔وہ 1970 میں جماعت اسلامی کے رکن بنے، 1978 میں جماعت کے سیکرٹری جنرل بنے اور1987 میں امیر منتخب کر لیے گئے اور پھر چار مرتبہ امیرمنتخب ہوئے۔قاضی حسین احمد 1985 میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ 1992
میں وہ پھر سینیٹر منتخب ہوئے تاہم وہ بعد میں مستعفی ہوگئے۔ 2002 کے عام انتخابات میں وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔قاضی حسین احمد ایک ہنگامہ خیز اور پاک وشفاف زندگی گزار کر چھ جنوری 2013 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔سیاست سے قطع نظر قاضی حسین احمد صاحب مرحوم ایک بے باک، مخلص، کھرے، ملنسار، روادار، متحرک اور پیار کرنے والے انسان تھے۔ اتحاد بین المسلمین کے علمبردار تھے اور انہوں نے ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔انہیں مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو، انگریزی، عربی اور فارسی پر بھی عبور حاصل تھا۔آپ اپنے مخالفین کا احترام کرتے، ناقدین کی تنقید خندہ پیشانی سے برداشت کرتے اور کبھی تنقید کرنے پر ان سے شکوہ کرتے نہ تعلق ختم کرتے۔ موجودہ حالات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاست میں برداشت اور تحمل کا مادہ ختم ہو تاجارہا ہے۔یہ چند ایسی خصوصیات ہیں جن کی ہمارے ملک میں آج بڑی سخت ضرورت ہے۔