دنیا کے بدلتے حالات

 جدید اسلحہ سے جو جنگیں  لڑی جاتی ہیں وہ بڑی تباہ کن ہوتی ہیں اس کی تازہ ترین مثال روس اور یوکرین کی موجودہ جنگ ہے۔ روسی افواج نے بقول کسے یوکرین کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی ہے یہ درست ہے کہ جنگوں میں جو تباہ کاریاں ہوتی ہیں  ان کے اعدادو شمار میں مبالغہ آ رائی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا  پر ایک محتاط تجزیئے کے مطابق روسی افواج یوکرین کے مفتوحہ لوگوں کے ساتھ جو ظلم اور زیادتی کر رہی ہیں وہ کسی طور بھی ان مظالم سے کم نہیں جو کہ ہٹلر کی افواج نے دوسری جنگ عظیم میں مشرقی یورپ کے بعض ممالک کے لوگوں پر ڈھائے تھے۔لگ یہ رہا ہے کہ پیوٹن نے تو اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھنا کہ جب تک ایک ایک کر کے وہ ان ممالک کو دوبارہ روس کے ساتھ ضم نہیں کر لیتا کہ جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھے اور نہ ہی امریکہ نے یہ برداشت کرنا ہے

کہ روس اور چین کی جوڑی عسکری سیاسی اور معاشی لحاظ سے دنیا پر چھا جائے ان دو بلاکوں میں کشمکش دنیا کے  مجموعی امن کیلئے ہر وقت خطرے کا باعث رہے گی اس وقت قابل افسوس بات یہ بھی ہے کہ دنیا میں روزویلٹ‘ مارشل ٹیٹو‘ڈیگال‘چو این لائی‘ نیلسن منڈیلا‘آ ئزن ھاور اور چرچل جیسے دور اندیش اور سیاسی فہم رکھنے والے عالمی سطح کے لیڈروں کا بھی فقدان دکھائی دے رہا ہے اور  پیوٹن جیسے جنگجو  رہنماؤں کی بہتات  ہے۔دوسری طرف صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ قدرتی گیس کی روبیل میں ادائیگی کا منصوبہ ہی اصل نمونہ ہے جس کو دنیا کا سب سے بڑا ملک اہم اشیا کی برآمدات میں توسیع دے گا کیونکہ مغربی ممالک نے ڈالر کی قدر میں کمی کو روکنے کیلئے روس کے اثاثے منجمد کردئیے ہیں۔ روس کی معیشت کو 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے سب سے بدترین بحران کا سامنا ہے

کیونکہ 24 فروری کو یوکرین پر صدر ولادیمیر پیوٹن کے حملے کے سبب امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس پر سخت پابندیاں عائد کردی ہیں۔اس پر پیوٹن کا بنیادی اقتصادی ردعمل یہ تھا کہ انہوں نے 23 مارچ کو روسی گیس کی برآمدات کی ادائیگی روبیل میں کرنے کا حکم دیا تھا البتہ یہ اسکیم خریداروں کو معاہدہ شدہ کرنسی میں ادائیگی کرنے کی اجازت دیتی ہے جسے گیزروم بینک کے ذریعے روبیل میں تبدیل کیا جاتا ہے۔کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے روس کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل ون کو گیس کی ادائیگی کے نظام کیلئے روبل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یہ نظام کا اصل نمونہ ہے۔پیسکوف نے کہا کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسے سامان کے نئے گروپوں تک بڑھایا جائے گا تاہم انہوں نے اس عمل کیلئے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا۔دمتری پیسکوف نے کہا کہ مغرب کا مرکزی بینک کے 30 ارب ڈالر کے ذخائر کو منجمد کرنے کا فیصلہ ایک ڈکیتی ہے جس نے پہلے ہی عالمی ریزرو کرنسیوں کے طور پر امریکی ڈالر اور یورو پر انحصار سے روس کو دوریاں بڑھانے پر مجبور کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کریملن 1944 میں مغربی طاقتوں کے ذریعے قائم کیے گئے بریٹن ووڈز کے مالیاتی ڈھانچے کی شکل بدلنے کیلئے ایک نیا نظام چاہتا ہے۔کریملن کے ترجمان نے کہا کہ گوکہ یہ اس مالیاتی نظام کے اطلاق میں وقت ہے لیکن یہ واضح ہے کہ ہم ایک نئے نظام کی طرف آئیں گے جو بریٹن ووڈز سسٹم سے مختلف ہے۔انہوں نے کہا کہ روس پر مغرب کی پابندیوں نے ڈالر اور یورو پر اعتماد کے فقدان کو مزید تقویت دی ہے۔پیوٹن نے کہا ہے کہ یوکرین میں خصوصی فوجی آپریشن ضروری ہے کیونکہ امریکہ یوکرین کو روس کو دھمکی دینے کیلئے استعمال کر رہا تھا اور ماسکو کو یوکرین کی جانب سے روسی زبان بولنے والے لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا دفاع کرنا تھا۔یوکرین نے پیوٹن کے ظلم و ستم کے دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے

کہ وہ بلا اشتعال جارحیت کی حامل جنگ لڑ رہا ہے۔ روسی حکام نے بارہا کہا ہے کہ دنیا کے قدرتی وسائل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک کو تنہا کرنے کی مغرب کی کوشش ایک غیر معقول عمل ہے جو صارفین کیلئے قیمتوں میں اضافے اور یورپ اور امریکہ کو کساد بازاری کی طرف لے جائے گا۔روس طویل عرصے سے امریکی کرنسی پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، حالانکہ اس کی اہم برآمدات تیل، گیس اور دھاتوں کی قیمت عالمی منڈیوں میں ڈالر میں ہیں، عالمی سطح پر ڈالر تجارت میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسی ہے‘ اس کے بعد یورو، ین اور برطانوی پاؤنڈ ہیں۔جہاں تک وطن عزیز کی سیاست کا تعلق ہے تو لگتا ہے کہ یہاں پر ایک اور ہوا چلی ہے‘انگلستان کے ہاؤس آف کامنز کی مثال ایک درسگاہ جیسی ہے کہ جس کے اجلاسوں میں والدین اپنے بچوں کو شرکت کیلئے اس لیے بھجواتے ہیں

کہ ان میں بیٹھ کر وہ یہ سیکھیں کہ بات چیت کیسے کی جاتی ہے، سیاسی رواداری کیا ہوتی ہے، تحمل و برداشت کسے کہتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس ہمارے ہاں حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ سیاست سے تحمل و برداشت اور رواداری کا عنصر ختم ہونے لگا ہے۔قرائن و شواہد یہ بتا رہے ہیں کہ جب تک ملک میں الیکٹورل اصطلاحات نہیں کی جاتیں اور اس کے تحت عام انتخابات نہیں ہوتے سیاسی افراتفری ختم نہیں ہوگی اور الیکشن ہارنے والی پارٹیاں دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگا کرملک میں انتشار پیدا کرتی رہیں گی۔